217

نظریۂ ضرورت کی گونج۔۔۔پروفیسرمظہر

لگ بھگ چار عشرے آمریتوں کے عفریت کے پنجۂ استبداد میں سِسکنے والے وطنِ عزیز کو اگر مارشل لاؤں کی سیاہ آندھیوں کے حوالے کرنے کا جرم سیاستدانوں سے سرزد ہوا تو اِس جرمِ عظیم میں عدلیہ کا کردار بھی واضح ہے ۔یہ طے کہ عدل ،جمہور کی طاقت ہوتا ہے اور عادل کی حدود وقیود آئین طے کرتا ہے لیکن جہاں عادل ہی آئین کی حدود توڑ کر باہر نکل جائے تو وہاں کوئی کرے بھی تو کیا۔
تموجن ،جسے عیسائی عذابِ الٰہی سمجھتے تھے ،ایک معمولی منگول سردار کا بیٹا تھا جس نے اپنے زورِبازو سے عظمتوں کا سفر جاری رکھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب پچاس منگول قبائل اُس کے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور اُسے چنگیزخاں یعنی ’’کائناتی شہنشاہ‘‘ کا خطاب دیا ۔ وحشی منگول قبائل کا اُس کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی وجہ ’’یاسا‘‘ یعنی آئین تھا جو اُس نے اِن قبائل کے لیے مرتب کیا۔ ’’یاسا‘‘ پر وہ خود بھی سختی سے کاربند تھا اور وحشی سردار بھی ۔یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے مال وزر سے لدے چھکڑے کھُلے میدانوں میں کھڑے رہتے لیکن کوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ اُس وحشی جنگجو نے عدل کا ایسا نظام قائم کیا جو تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے لیکن ہمارے ہاں اُس کی کوئی نظیر سِرے سے موجود ہی نہیں حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور اسلامی جمہوری نظام کے داعی جس کے عدل کی تعریف دوست دشمن ،سبھی کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جب پاکستان کی تاریخِ عدل کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو نگاہیں شرم سے جھُک جاتی ہیں۔
1954ء میں جب گورنر جنرل غلام محمدنے اسمبلی توڑی تو جسٹس منیر نے اِسے ’’نظریۂ ضرورت ‘‘ کے تحت درست قرار دیااور پھر یہی نظریۂ ضرورت ہمارے نظامِ عدل میں جاری و ساری ہوگیا ۔پھر 1958ء کے ایوبی مارشل لاء کو درست قرار دیتے ہوئے جسٹس منیر نے فیصلہ دیا ’’کامیاب انقلاب یا کامیاب فوجی قبضے کو بین الاقوامی طور پر آئین تبدیل کرنے کا درست طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے ‘‘۔5 جولائی 1977ء میں جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لاء لگایا تو بیگم نصرت بھٹو نے اُسے چیلنج کر دیا ۔چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں فُل بنچ نے یکم نومبر 1977ء کو فیصلہ دیا ’’نظریۂ ضرورت اور قوم کے عظیم تر مفاد میں فوج نے ماورائے آئین جو اقدام کیے ہیں ،وہ درست ہیں‘‘ ۔فُل بنچ نے ضیاء الحق کو قانون سازی تک کے اختیارات دے دیئے حالانکہ ضیاء نے اِس کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ اِسی فیصلے کی بنا پر ضیاء نےّ آئین میں مَن مرضی کی ترامیم کیں۔ آرٹیکلز62/63 اُسی دور کی پیداوار ہیں۔پھر ضیاء نے 58-2B کے تحت محمد خاں جونیجو کی حکومت کو فارغ کیا ۔تو جونیجو مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیالیکن سپریم کورٹ نے جونیجو حکومت کو بحال کرے سے انکار کر دیا۔
پھر 12 اکتوبر 1999ء کو آمر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی آئینی حکومت کا تختہ اُلٹا ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور کئی دوسرے جج فارغ کر دیئے گئے اور جسٹس ارشاد حسن خاں کو چیف جسٹس بنا دیا گیا جس نے ایک دفعہ پھر نظریۂ ضرورت کے تحت وہی فیصلہ دہا جو یکم نومبر 1977ء کو جسٹس انوارالحق نے ضیاء الحق کے حق میں دیا تھا۔ آئینی وزیرِاعظم جلاوطن ہوا اور پرویزمشرف کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے والے بہت سے دستیاب ہو گئے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعدآصف زرداری صدر بنے اور 58-2B کا خاتمہ ہوا۔ خیال تو یہی تھا کہ اب نومنتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کیا کریں گی لیکن ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ،جو سنا افسانہ تھا‘‘ ۔ پہلے عدلیہ نے توہینِ عدالت کیس میں پیپلزپارٹی کے وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی کو گھر کا راستہ دکھایا اور اب آرٹیکل 62-A کی تلوار چلی اور میاں نوازشریف کی آئینی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ لوگ اِس فیصلے کو بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ہی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ نوازلیگ برملا اِس فیصلے کو ایک سازش قرار دے رہی ہے جس میں عمران خاں کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ میاں نوازشریف نے کہا ’’فیصلہ پہلے ہو چکا تھا،جواز بعد میں ڈھونڈا گیا۔کیا یہ مناسب ہے کہ کروڑوں کے مینڈیٹ کو پانچ افراد چلتا کریں۔میں نے چار سال جو اقتدار میں گزارے ،وہ میں ہی جانتا ہوں ‘‘۔ میاں صاحب نے پانچ رکنی بنچ کے اِس عجیب وغریب فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’کہتے ہیں ،تنخواہ کیوں نہیں لی، یہ اثاثہ تھااِس لیے ڈکلیئر کرنا چاہیے تھا ۔جب تنخواہ لی ہی نہیں تو ڈکلیئر کیوں کرنا تھا۔جنہوں نے کچھ وصول ہی نہیں کیا ،اُنہیں کِس بنا پر نا اہل کر دیا گیا‘‘۔ اِس عدالتی فیصلے کے بعدمیاں صاحب کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کو وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔وہ کسی بھی عدالت سے دی گئی سزا کو موقوف کر سکتے ہیں لیکن اُنہوں نے یہ اختیارات استعمال کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’’میں عدالتی فیصلے کو قانونی جنگ اور عوامی تائید سے لڑوں گا اور جیتوں گا‘‘۔ میاں صاحب کے اِس بیان کے بعد کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اِس متنازع اور جانبدارانہ فیصلے کے باوجود بھی ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی بجائے ’’قانونی جنگ‘‘ کا راستہ اختیار کر نے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے وکلاء کا پینل اِس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی اپیل دائر کرنے جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اِس فیصلے پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے ۔دبنگ عاصمہ جہانگیر نے کہا’’ جج کے لیے قابلیت ہی نہیں دیانت بھی لازمی ہوتی ہے‘‘۔ ارضِ وطن کا ہر شخص منصفوں سے دیانت ہی کی توقع کرتا ہے لیکن جب اُن کی دیانت پر بھی سوال اُٹھنے لگیں تو پھر صرف ایک ہی عدالت باقی بچتی ہے جو ربِّ لَم یَزل کی عدالت ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ہی ہوتا ہے۔ کوئی اگر اِس غلط فہمی میں مبتلاء ہے کہ وہ عدالت ابھی دور ہے تو یہ اُس کی بھول ہے کیونکہ رَبّ کی رسی اگر دراز ہے تو اُس کی پکڑ بھی اُتنی ہی سخت۔ یہ مکا فاتِ عمل ہی تو ہے کہ آج کپتان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے اوراُنہیں بچ نکلنے کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی ۔ عائشہ گلالئی کے معاملے پر تحقیقات کے لیے متفقہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا پہلے کپتان نے خیرمقدم کیا لیکن اب یوٹرن لیتے ہوئے اِس دَس رکنی کمیٹی کو مسترد کر دیا۔ اب ظاہر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا ہی ہے ،وہ فیصلہ خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں