417

کھوارادب کے فیس بکی سکالرز۔۔۔۔اعجاز احمد اعجازؔ

آج کل نت نئے ایجادات کیوجہ سے نہ صرف انسان کی معیار زندگی بہترہوئی ہے بلکہ انسان کو بہت زیادہ سہولیات بھی میسر آئے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے وہ فاصلے اب نہیں رہے جو پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ آج سے چند سال پہلے موجودہ سہولیات نہ ہونے کیوجہ سے ایک دوسرے س رابطہ کرنا کافی صبر آزما ہوا کرتا تھا۔ اب حالات یہ ہیں کہ پاکستان میں بیٹھاہوا ایک شخص ان سہولیات کی بدولت دنیا کے مختلف کونوں میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے منٹوں کے اندر آگاہ ہوجاتا ہے۔
سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ کی وجہ سے ایک انسان مختلف معلومات کے علاوہ دوسرے ممالک کے تہذیب و ثقافت سے بھی باخبر ہوجاتا ہے۔ اگرچہ فیس بک ایک اچھا خاصا معلومات افزا اور فائدہ مند ہے لیکن بعض اوقات یہی فیس بک بہت زیادہ نقصانات کا بھی باعث بن جاتا ہے۔ وسائل کی عدم دستیابی اور دوسرے ناگزیر وجوہات کی بناء پر میں فیس بک کے وہ ثمرات حاصل نہیں کر پارہاہوں جو دوسرے لوگ حاصل کررہے ہیں۔ البتہ جب کبھی فرصت کے لمحات نصیب ہوتے ہیں تو فیس بک سے استفادہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
مہینوں بعد جب میں فیس بک میں لاگ ان ہوکر مختلف لوگوں کی پوسٹس دیکھ رہا تھا تو مجھے کھوار زبان وادب بھی تختہ مشق بنا ہوا نظر�آیا۔ پہلے میں نے کوشش کی کہ ان چیزوں سے صرف نظر کروں لیکن کھوار زبان وادب کیساتھ تھوڑی سی وابستگی ہونے کی وجہ سے یہ تحریرلکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ فیس بک کے ذریعے سے کچھ نام نہاد اور خود ساختہ نقادوں نے کھوار زبان و ادب کو جو نقصان پہنچارہے ہیں ، وہ قابل بیان نہیں۔ فیس بک کے یہ سکالرز کھوار زبان و ادب کا حلیہ ہی بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں اوریہی حضرات خود کو مستند نقاد سمجھ کر اپنی من پسند ، رشتہ دار یا دوست شاعر کو اس کی تخلیق کی وجہ سے نہیں بلکہ کوئی واسطہ ہونے کیوجہ سے فخرِ ِ چترال وغیرہ کے القابات سے نوازتے ہیں اور ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں پر بھی اپنے اس غلط فیصلے کو مسلط کرنا چاہتے ہیں جو کہ ایک قابل فکر المیہ ہے۔
ان نقادوں میں اکثریت ان صاحبان کی ہے جو صبح سے لیکر رات گئے تک پشتو میوزک سنتے ہیں اور اتنے سرور میں آتے ہیں کہ ان پر وجد طاری ہوجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو پشتو زبان بولنا اور سمجھنا دور کی بات ، پشتو زبان کی ابجد سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ اگر یہ صاحبان صرف میوزک سننے پر اکتفا کرتے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ صاحبان اب کھواز زبان وادب میں شاعری کا معیار متعین کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو ایک خطرناک امر ہے۔جب کبھی یہ نقاد صاحبان کسی ادب پارے پر کوئی غلط رائے دیتے ہیں تو ادب کی تھوڑی بہت شدبد رکھنے والا شخص ان کی تصحیح کیلئے کوئی لقمہ دیتا ہے تو یہ لوگ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے الٹا اسے اڑے ہاتھوں لیکر اسے وہ گیدڑ بھبکیاں سناتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔اب اس بیچارے انسان کے پاس خون کے آنسو رونے کے سوا اور کیا ہوگا۔کیونکہ جب ان سے الجھو گے تو رسوائی کے سوا کچھ اور ہاتھ نہیں آئے گا لہذا ان کو سلاما سے موزوں کوئی اور جواب نہیں ہوسکتا۔
حد تو یہ ہے کہ یہ خود ساختہ سکالرز خود کو ادب میں ید طولیٰ سمجھتے ہیں جبکہ ان کی حقیقت یہ ہے کہ نظم اورغزل میں جو بنیادی فرق ہوتی ہے ، اس سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ فیس بک میں کامنٹس دو اور کامنٹس لو کی پالیسی پر عمل پیرا یہ لوگ جب کھوار ادب میں شاعرکا معیار تعین کرینگے تو خاکم بدھن گستاخی معاف، کھوار ادب ادب کہلانے کے قابل نہیں رہے گا۔
کھوار ادب کے وہ شعرآ اور ادباء جو ادب عالیہ تخلیق کرتے ہیں، اور اپنی بہتریں تخلیقات سے کھوار زبان و ادب کو موتیوں سے بھر دیئے ہیں، وہ مجھے دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں بلکہ ان قد آور اور اہل علم ادبی شخصیات کے نشست میں احمقوں کے جنت کے باسی خود کو عقل کل سمجھنے والے یہ متشاعر حضرات براجمان ہونے کی اپنی ناکام کوششوں میں دیوانہ وار لگے ہوئے ہیں۔
میں اس تحریر کی روسے ان صاحبان کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کروں گا کہ کھوار ادب کو معاف رکھیں کیونکہ ایک عام سی بات ہے کہ ایک شخص کو بریانی کھانا بہت زیادہ پسند ہوگا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس شخص کو بہت مزیدار اور لذیذ بریانی پکانے کا فن بھی آتا ہو اس لئے آپ بھی فی الحال شعر پڑھیں اور حظ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ اد ب کے متعلق غلط رائے دیکر فتنہ برپا کرنے کی سعی نہ کریں۔ اب مجھے یہ خدشہ رہنے لگا ہے کہ خدانخواستہ کھوار ادب بھی عروج کے بجائے زوال پزیر نہ ہوجائے جس طرح ایک مکان منٹوں میں تعمیر نہیں ہوسکتا اسطرح ادب بھی راتوں رات اوج ثریا تک نہیں پہنچ سکے گا بلکہ جہد مسلسل سے ہم اپنی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر ہم کھوار ادب کے ماضی پر نظر دوڑائیں گے تو ہم پر یہ حقیقت اشکار ہوجائیگا کہ چترال کے قابل فرزندوں نے گلشن کھوار ادب کو اپنی جگر کے خون سے آبیاری کرکے سرسبز و شاداب رکھنے میں اپنی عمریں تمام کئے ہیں لیکن چند سستی شہرت کے بھوکے لوگ کھوار ادب کے قلعے کی بنیاد کی اینٹیں نکالنے پر مصر ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے کرائے کے مداحوں کیساتھ کھوار ادب کی گلشن پر لشکری سنڈیوں کی طرح آور ہوئے ہیں۔ لہذا وہ تمام اہل علم ادباء اور شعرآ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کھوار ادب کو ترقی دینے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لشکری سنڈیا ں کھوار ادب کے گلشن کی ہریالی کو چاٹ نہ جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں