239

کریم آباد، ارکاری اور پرسان وادیوں میں معیاری پکی سڑکیں تعمیر کئے جائیں۔بلدیاتی نمائندوں اور معززین علاقہ کی پریس فورم میں اظہار خیال

چترال / سب تحصیل لوٹ کوہ کی وادیوں کریم آباد، ارکاری اور پرسان میں سڑک کی مخدوش صورت حال کو تینوں وادیوں کا نہ صرف تینوں وادیوں کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا بلکہ اسے دوسرے شعبوں میں “مسائل کی ماں “بھی قرار دی گئی اور تینوں وادیوں کے اہالیاں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ ترقی کا عمل سڑک کے ذریعے آتی ہے اور جب تک ان وادیوں میں معیاری سڑکیں تعمیر نہیں ہوتے، کوئی ترقی ممکن نہیں جبکہ حکومت کی عدم توجہی اور بے حسی قابل افسوس اور مذمت ہے کیونکہ موجودہ سڑکیں وادیوں کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت چار دہائی سال پہلے خود تعمیر کئے تھے۔ لوٹ کوہ کے تاریخی گاؤں شوغور کے مقام پر چترال پریس کلب کے زیر اہتمام پریس فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی نمائندوں اور مغززیں علاقہ نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ان وادیوں میں معیاری پکی سڑکیں تعمیر کئے جائیں تاکہ ان علاقوں میں بھی ترقی کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہوسکے۔ پریس فورم سے خطاب کرنے والوں میں شوغور سے تحصیل کونسل کے ممبر محمد علی شاہ، کونسلرز جمادالکریم، سید جلال الدین، رحمان علی شاہ، معززین علاقہ سردار علی اور محمد حاصل نے کہاکہ سڑک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان وادیوں میں ترقی کے دوسرے شعبوں میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک ان وادیوں میں محکمہ تعلیم کے سوا کسی سرکاری محکمے کے نام سے مقامی لوگ واقف نہیں ہیں جن میں محکمہ زراعت، ایریگیشن،محکمہ ابنوشی، محکمہ ماہی پروری، محکمہ حیوانات، محکمہ صحت شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی حکومت نے ان پسماندہ وادیوں کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دی جس کا ثبوت ان وادیوں کی پرپیچ اور پر خطر سڑکیں ہیں جوکہ سال کے چار مہینے بند رہتے ہیں اور اب تک ڈھائی سو سے ذیادہ افرا د یہاں آتے جاتے ہوئے ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن گئے۔ ان کاکہنا تھا کہ ان وادیوں میں اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہسپتال کی کوئی سہولت موجود نہیں اورقریب تریں ہسپتال شوغور میں واقع ہے جس کی اپنی حالت مخدوش ہے اور مریضوں اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال جانے کے سوا اور کوئی چار ہ نہیں ہے جوکہ ہرکسی کی مالی استطاعت سے بھی باہر ہے۔ انہوں نے شوغور میں قائم آغا خان ہسپتال کی کارکردگی کو روبہ زوال قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہسپتال میں اسٹاف میں کمی کرتے ہوئے 28میں سے صرف 4اسٹاف کو باقی رکھے گئے ہیں اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے بلدیاتی نظام پر اپنی عدم اطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس میں منتخب نمائندوں کے پاس نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی ترقیاتی فنڈزجبکہ جو کچھ حقیر فنڈز دئیے بھی جاتے ہیں، ان میں اس قدر کٹوتی کی جاتی ہے کہ کوئی ترقیاتی کام مکمل کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ انہوں نے کہاکہ تعمیراتی محکمہ جات میں انجینئروں اور ٹھیکہ داروں کی ملی بھگت موجود ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی کاموں کی معیار انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تینوں وادیوں کے سنگم میں واقع شوغور گاؤں کو درپیش سیلاب کے خطرے کے پیش نظر اس گاؤں کو سیلاب سے بچانے کے لئے بھی خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں جن میں شجرکار ی حفاظتی پشتوں کی تعمیر شامل ہیں۔ گرم چشمہ روڈ پر واقع گاؤں روجی کے مسائل بیان کرتے ہوئے سردار علی نے کہاکہ مقامی سرکاری سکو ل کا انچارج نے پی ٹی سی کے چیرمین کے انتخاب میں قانونی تقاضے پورے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی چیرمین چن لیا ہے اور سکول کی عمارت کی حالت نہایت مخدوش ہے جہاں کسی بھی وقت حادثہ رونما ہوسکتا ہے اور سکول کی چاردیواری بھی نہیں ہے جبکہ سات لاکھ روپے اس پر خرچ کئے جاچکے ہیں۔ اس موقع پر تینوں وادیوں کے مغززیں نے شوغور میں پریس فورم کے انعقاد پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں