290

ٹیلیفون میں سرکاری رکاوٹ ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی 

یہ بات درست ہے کہ ٹیلیفون کی نجکاری کے بعد صارفین کو 100 فیصد فائدہ ہوا ہے 10 سال کا کام ایک دن میں ہوتا ہے اور 6 مہینوں کا کام آدھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے تاہم سرکاری رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں اتصالات ہمارے عرب بھائیوں کی کمپنی ہے اس کمپنی کے ساتھ حکومت نے اثاثوں کی منتقلی کا پھڈا ڈالا ہو ا ہے ا ب تک فائبر آپٹیک اور براڈ بینڈ میں ایک سو پچاس رکاوٹیں حائل کی گئی ہیں نئے ایکسچینج قائم کرنے کا الگ پھڈا چل رہا ہے دور دراز پہاڑی دیہات میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیگر کمپنیوں کو اتصالات کا بزنس دلایا گیا ہے مثلاًچترال،دیر،سوات اور گلگت کی سرحدپر واقع وادی لاسپور کے 15 ہزار صارفین کا بزنس اتصالات سے لیکر ایک اور کمپنی کو د ے دیا گیا اتصالات کا سار ا سسٹم اور انفراسٹرکچر نا کارہ ہوگیا اسی طرح چترال میو نسپلیٹی کے اندر نیبر ہُڈ کونسل کی حدوو میں سین لشٹ ایکسچینج کا مسئلہ گذشتہ دوسالوں سے کھٹا ئی میں پڑا ہوا ہے اس علاقے میں چاربڑے تعلیمی اور تحقیقی ادارے ہیں یونیورسٹی کیمپس ہے آغا خان ہائیر سکینڈری سکول ہے دی لینگ لینڈ سکول انیڈ کالج ہے زرعی ریسرچ سٹیشن ہے 10 ہزار دیگر صارفین ہیں چترال ایکسچینج ے اس کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے یہاں نہ برانڈ بینڈ کا م دیتا ہے نہ فورجی اور تھری جی کام دیتا ہے اگر حکومت پی ٹی سی ایل کے کام میں رکاؤٹ نہ ڈالتی تو دوسال پہلے ایکسچینج قائم ہو چکا ہوتا ہمارا پکا پکا دعوی ٰ ہے کہ ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو بہترین مواقع دیتے ہیں ہماری یہ پکی بات ہے کہ سرمایہ کار آئیں اور مواقع سے فائد ہ اُٹھا ئیں مگر جو لوگ جنر ل مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں آئے تھے ان کوہم نے بھا گنے اور واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے ہماری شہر ت پھڈا بازی ہے کوئی سر مایہ کار ہم پر اعتبارنہیں کرتا کسی سرما یہ کار کا ہم پر اعتماد نہیں ضلع کا اعلیٰ پولیس افیسر ایک حساس مسئلے پر یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ بات کر نا چاہتا ہے مگر آدھ گھنٹے سے فون نہیں مل رہا ، کمپیوٹر کہتا ہے ، آ پ کو یہ سہولت دی نہیں جاسکتی جس نمبر پہ آپ کال کر نا چاہتے ہیں وہ ہماری لسٹ میں نہیں دومنٹ کی گفتگو نا کام ہونے کے بعد 12 کلومیٹر دور گاڑی بھیج کر بات پہنچا نے کی ضرورت پڑتی ہے اگر معاملہ ہنگامی نوعیت کا ہوتو بیڑ ہ غرق ہوجاتا ہے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کو دی لینگ لینڈ سکول اینڈ کالج میں بات کر نے کی ضرورت پڑتی ہے لائن ملنے کے بعد کٹ جاتی ہے موبائیل نیٹ ورک کام نہیں کرتا 12 کلو میٹر دُور گاڑی دوڑا کر پیغام پہنچانا پڑتا ہے اگر حکومت رکاوٹ نہ ڈالتی تو اتصا لات نے دو سال پہلے یہاں ایکسچینج قائم کرنا تھا دو سال پہلے جو فیزیبیلٹی بنائی گئی تھی اس میں دیگر چیزون کے علاوہ تین امور کا بطور خاص ذکر تھا پہلی بات یہ تھی کہ اس نیبر ہُڈ کونسل کی لائبریریوں میں روزانہ 50 ہزار کتابوں کے 10 لاکھ صفحے ڈاون لوڈ کرنے کی گنجائش ہوگی تعلیمی اداروں سے ماہانہ 50 لاکھ روپے اور دیگر صارفین سے ہر ماہ 10 لاکھ روپے کا ریونیو آئے گا تیسری اہم بات یہ تھی کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں پی ٹی سی ایل کی سروس کا چرچا ہوگا جو بزنس پلان کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے مگر ’’اے بسا آرزہ کہ خاک شدہ ‘‘ہماری سرکار کہتی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہونے والا جنر ل مشرف کا دور چلا گیا ،شوکت عزیز اب واپس آنے والا نہیں ہم باہر سے آنے والے سرمایہ کارکو اتنا رگڑا دینگے کہ وہ توبہ کرے گا خود بھاگنے پر مجبور ہوگا دوسرے سرمایہ کاروں کے لئے اعلان کرے گا کہ کوئی بھی پاکستان نہ جائے اگر پالیسیوں میں تسلسل ہوتا ،اگر قومی بہتری کیلئے اجتماعی سوچ اور فکر ہوتی ،اگر قوم اور ملک کے بہتری کیلئے حکومت کے پاس سوچی سمجھی پالیسی ہوتی تو گذشتہ 10 سالوں میں پی آئی اے ، واپڈا ، او جی ڈی سی ، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلوے اور 20 دیگر اداروں کی نجکاری ہوچکی ہوتی حکومت کو ریونیو ملتا عوام کو سروس ملتی اور دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی ہوتی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ٹیلیفوں کی کامیاب نجکاری کے باو جود بیرونی سرمایہ کار کو بھاگنے پر مجبور کررہے ہیں نیا سرمایہ کار ملک کے اندر سرمایہ لگانے پر آمادہ نہیں پاکستانیوں کا سرمایہ ملک سے باہر جا چکا ہے انگلینڈ ،کنیڈا ،اٹلی ،سپین اور امریکہ ترقی یا فتہ ممالک ہیں پاکستانی سرمایہ کاروں نے ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش ،ملائشیااور سری لنکا میں بھی سرمایہ لگایا ہوا ہے اپنے ملک سے ان ممالک کو بھی محفوظ خیال کرتے ہیں لاسپور اور سین لشٹ جیسی مثالیں چترال ہی میں نہیں ایسی مثالیں پاکستان کے ہر ضلع میں موجود ہیں جہاں سرکاری رکاوٹوں کی وجہ سے ٹیلیفون اور براڈبینڈکی سہولت نہیں دی گئی فیزیبیلٹی ہونے کے باوجود نئے ایکسچینج نہیں لگائے گئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں