284

ڈبل تنخواہ لینے والے 800 اساتذہ کو فارغ کیا اور نئے بھرتی کئے/356 مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹس میں سے 250 مکمل ہو چکے /سو فیصد اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے،سی ایم

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے ایماندار قیادت اور شفاف نظام کا ہونا ضروری ہے یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں اگر باصلاحیت اور ایماندار قیادت ہوگی تو وہ اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر کے ایک بااختیار اور شفاف نظام کا راستہ ہموار کریگی کسی بھی ترقیافتہ ملک کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو ان کی ترقی کے پیچھے یہی دو چیزیں کار فرما ہیں پاکستان میں تبدیلی اور ترقی کے دعوے ہر سیاسی جماعت نے کئے ہیں مگر کسی جماعت نے بھی اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کیاتحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے عزم ،وژن اور منشور کے مطابق خیبر پختونخوا میں شفاف نظام کی بنیاد رکھ دی ہے جن لوگوں کے کان اور آنکھیں بند ہیں اور وہ ارادتاً حقیقت کو سننا اور دیکھنا نہیں چاہتے وہ سوال کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں تبدیلی کہاں ہے حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو تبدیلی کی سمجھ ہی نہیں ہے کیونکہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ اس ملک میں شفاف نظام قائم ہو سٹیٹس کو کی قوتیں کبھی بھی نظام میں تبدیلی، اداروں کی بحالی اور کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کے مفادات اسی ناکارہ اور کرپٹ سسٹم سے وابستہ ہیں خیبر پختونخوا میں ہمیں تباہ حال سٹرکچر ملا جس کو ٹھیک کرنے کیلئے عزم اور وسائل کی ضرورت تھی ہم تقریباً 65 سال سے تباہ حال ڈھانچے کو ٹھیک کرنے کیلئے کوشاں ہیں خیبر پختونخوا کے کل اور آج میں بڑا فرق ہے۔ بڑے سے بڑا مخالف سیاستدان بھی تعصب اور خود غرضی کی عینک اتار کر دیکھے تو اسے بھی فرق نظر آئے گاتبدیلی کے اس عمل کو آگے لے کر جانا ہے۔ ہمیں اعتراضات کی فکر نہیں ہماری توجہ اداروں پر مرکوز ہے جب ادارے ڈیلیور کرینگے تو مخالفین کے منہ بند ہو جائینگے ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ۔19 کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینئر صوبائی وزیرعنایت اللہ خان ، وزیراطلاعات شاہ فرمان، وزیرتعلیم محمد عاطف خان، ایم پی اے شوکت یوسفزئی، متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز اور اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ وزیراعلیٰ نے شرکاء کو صوبائی حکومت کی چارسالہ کارکردگی اور اصلاحات کے عمل میں درپیش چیلنجز سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت شروع دن سے نظام کی تبدیلی کیلئے کوشاں ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے پاس سونے کے پہاڑ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی شکلیں ہم سے اچھی ہیں وہ اس لئے ہم سے آگے نکل گئے کیونکہ انہوں نے اپنے اداروں پر سیاست نہیں کی۔ تحریک انصاف نے اس ناقابل تردید بین الاقوامی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم سے نظام کی تبدیلی کا وعدہ کیااور عوام نے بھی اسی مقصد کیلئے ہمیں ووٹ دیا۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھاکیونکہ 70 سال سے تباہ حال اداروں کو ٹھیک کرنا اتنا آسان نہیں تھاہمارا آدھا بجٹ پرانے ناکارہ سٹرکچر کوٹھیک کرنے میں خرچ ہوا ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ بعض سیاستدان اعتراض کرتے ہیں کہ صوبے کے ہسپتال اور تعلیمی ادارے ٹھیک نہیں ہیں مگر وہ اعتراض کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ یہ ادارے تباہ کرنے والے بھی وہ خود ہیں اگر یہ مجرم اپنے ادوار حکومت میں ان اداروں پر توجہ دیتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ 70 سالوں میں کسی نے نہ سوچا کہ غریب کے ساتھ کتنا ظلم ہورہا ہے صوبے کے سرکاری سکولوں میں دو استاد، دو کمرے اور چھ کلاسز یہ کہاں کا انصاف تھااس ناانصافی نے غریب کی بنیاد کو تباہ کر کے رکھ دیاوزیراعلیٰ نے کہا کہ سب کو تعلیم اور ترقی کے یکساں مواقع ملنے چاہیں اگر غریب کا بچہ دسویں جماعت تک اردو میں تعلیم حاصل کریں اور گیارویں سے اسے یکدم انگلش میڈیم کا سامنا کرنا پڑے تو وہ کیا سیکھے گا اور کیا مقابلہ کرے گا ہمارے دہرے نظام تعلیم نے کروڑوں بچوں کا مستقبل تباہ کیاموجودہ صوبائی حکومت نے امیر اور غریب کے درمیان اس فرق کو ختم کرنے کیلئے پرائمری کی سطح پر انگلش میڈیم شروع کیا سرکاری سکولوں میں مسنگ فیسیلٹیزکی فراہمی سمیت اساتذہ کی حاضری کا نظام متعارف کرایااین ٹی ایس کے ذریعے چالیس ہزار اساتذہ بھرتی کئے اب صوبہ بھر میں 95 فیصد اساتذہ موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب وہ حکومت میں آئے تو شعبہ صحت میں بھی ایک تماشہ چل رہا تھاہم نے ڈبل تنخواہ لینے والے 800 اساتذہ کو فارغ کیا اور نئے بھرتی کئے اپنی دکانداری کی فکر میں ترقی نہ لینے والے ہزار ڈاکٹرز کو زبردستی ترقی دی اور مزید نئے ہزار ڈاکٹر ز بھرتی کئے تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر پشاور اور ایبٹ آباد کے علاوہ کسی دوسرے ضلع میں جانے کیلئے تیار نہیں تھے ہم نے تنخواہیں ڈیڑھ لاکھ تک پہنچا دیں اس وقت صوبہ بھر میں 95 فیصد ڈاکٹرز اور سو فیصد ٹیکنیشنز موجود ہیں ہسپتالوں میں ماضی کی تباہ حال مشینری کو ٹھیک کرنے کیلئے 15 ارب روپے کی ضرورت ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کی پولیس بھی سیاسی لوگوں کی غلام تھی انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب پولیس وزیراعلیٰ یا وزیروں کے تابع ہو تو ڈیلیور کیسے کرے گی۔ ہم نے پولیس کو بااختیار بنایا سیاسی مداخلت ختم کی این ٹی ایس کے ذریعے نئی بھرتیاں کیں۔ صوبے میں پہلا اینٹلی جنس ادارہ سی ٹی ڈی قائم کیا اور ٹریننگ سکول بنائے گئے پولیس، فوج اور خفیہ اداروں پر مشتمل معلومات کے تبادلے کا ایک منظم سسٹم بنایا ہمارے اقدامات کی وجہ سے پولیس ایک بہترین ادارہ بن چکا ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ دوسرے صوبوں کو بھی خیبر پختونخوا حکومت کی طرح پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر کے بااختیار بنانا چاہئے وزیراعلیٰ نے امن و امان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بارڈرمینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کا بہت نقصان ہوا بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کار صوبے کو چھوڑکر باہر چلے گئے بارڈر مینجمنٹ،آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی وجہ سے بہت فرق پڑا ہے صوبائی حکومت کی قانون سازی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا اطلاعات تک رسائی کا قانون دنیا کے دس بہترین قوانین میں سے ایک ہے اور یہ حقیقی معنوں میں نافذ ہے کیونکہ ہم کچھ چھپانا نہیں چاہتے یہاں سب کچھ اوپن ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ میں آر ٹی آئی کے قانون کے نام پر گپ لگائی گئی اسلئے کہ وہ اپنے معاملات منظر عام پر لانا ہی نہیں چاہتے نظام کی شفافیت اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے خدمات تک رسائی کا قانون، کنفلکٹ آف انٹرسٹ، وصل بلوئر کے قوانین اور وزیراعلیٰ شکایات سیل کاقیام اہم اقدامات ہیں۔شکایات سیل کے تحت غریب عوام کی شکایات پر 50 کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی ہے اور ہزاروں ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی ہے توانائی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سابقہ حکومت کے پانچ سال میں صرف 56 میگاواٹ بجلی کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جبکہ ہم صرف مائکرو ہائیڈرو پراجیکٹس کے ذریعے سو میگاواٹ بجلی پیدا کرلیں گے356 مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹس میں سے 250 مکمل ہو چکے ہیں جو متعلقہ کمیونٹی کے حوالے کر رہے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ واحد حکومت ہے جس نے سو فیصد اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے اور مجموعی بجٹ کا 30 فیصد مقامی حکومتوں کو دیا۔میٹرک کے سالانہ نتائج پر سوال کے جواب پر وزیراعلی نے کہا کہ یہ نتیجہ ماضی کے ناکارہ تعلیمی اور امتحانی نظام کا غمازہے ہمارے اقدامات کا نتیجہ پانچ دس سال کے بعد آئے گاہم نے امتحانات میں سختی شروع کی نقل کو کنٹرول کیا تو نتیجہ متاثر ہوا جس سے پتہ چلا کہ ماضی میں نقل اور نمبروں کی خرید و فروخت پر مبنی جھوٹا نتیجہ دیا جاتا تھا۔قبل ازیں ورکشاپ کے شرکاء کو محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات اور محکمہ داخلہ کے انتظامی سیکرٹریز نے صوبائی حکومت کی بنیادی اصلاحاتی اور امن و امان کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور ان کے نتائج سے متعلق بریفنگ دی اور بہتر طرز حکمرانی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر روشنی ڈالی ورکشاپ کے شرکاء نے صوبائی حکومت کی تبدیلی کیلئے کی گئی اصلاحات اور امن عامہ کی بحالی خصوصاً نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبائی حکومت کی کارکردگی کو سراہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں