181

داد بیداد۔۔۔این ۔اے 4کا لِٹمس ٹیسٹ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

داد بیداد۔۔۔این ۔اے 4کا لِٹمس ٹیسٹ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ لِٹمس(Litmus)کاغذ پر کسی بھی ٹیسٹ کو سب سے آسان ٹیسٹ سمجھا جاتا ہے خیبر پختونخواکے عوام کا مزاج 2018ء میں کس پارٹی کے حق میں ہونے والا ہے اس کاآسان ٹیسٹ این ۔اے 4پشاور کا ضمنی انتخاب ہے گلزار خان مرحوم نے یہ سیٹ 2013ء میں بھاری اکثریت سے جیت کر دکھایا تھا وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے 2014میں دھرنے کے دوران انہوں نے 3دیگر ممبران کو ساتھ ملاکر قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا ساتھ نہیں دیا وہ دھرنے میں بیھٹنے کے بجائے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے اس بناء پر پارٹی قیادت کے ساتھ ان کے اختلافات ہوئے ان کی وفات کے بعد ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا تو ان کے بیٹے اسد گلزارخان نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے لیا اس حلقے میں مسلم لیگ (ن)کا ٹکٹ ناصر موسیٰ زئی کو ملا ہے عوامی نیشنل پارٹی نے خوش دل خان کو ٹکٹ دیاجو گلزار خان مرحوم کے مقابلے میں ہار گئے تھے اور دوسرے نمبر پر آئے تھے پاکستان تحریک انصاف نے ارباب عامر کو اور جماعت اسلامی نے واصل فاروق کو ٹکٹ دیا ہے دونوں اتحادی جماعتیں یہاں بھی الگ الگ ٹولیوں میں بٹی ہوئی ہیں استاد ذوق کی غزل کا شعر ہے
لختِ دل اور اشکِ تر، دونوں بہم دونوں جدا
ہیں رواں دو ہم سفر ، دونو ں بہم دونوں جدا
اس حلقے میں دوسرے امیدوار بھی ہیں جمیعتہ العلمائے اسلام (ف) نے یہاں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے قومی وطن پارٹی نے بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کی حامی بھری ہے اتمان خیل مہمند قبیلہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کررہی ہے صوبائی حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس حلقے میں اہم عہدوں پر نئی تقرریوں کو منسوخ کرنے کا حکم دے کر صوبائی حکومت کی سر زنش کی ہے نیز صوبائی حکومت کی طرف سے منصوبوں کے اعلانات اور ترقیاتی فنڈ کی تقسیم پر بھی پابندی لگائی ہے اسی طرح الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو بھی گیس اور بجلی کے منصوبے بانٹنے سے منع کیا ہے پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ہم ’’کارکردگی‘‘ کی بنیاد پر این اے۔ 4کا معرکہ سر کرلینگے مخالفین کو شکست فاش دینگے چوروں اور ڈاکوؤں کو مار بھگا ئینگے مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ حق کی فتح ہوگی عوام اچھے اور برے میں تمیز کرنا جانتے ہیں پشاور کے عوام 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی غلطی پر نادم، پشیمان اور شرمندہ ہیں ایسی غلطی پھر کبھی نہیں دہرائنگیے ، اے این پی کا دعویٰ ہے کہ باچا خانی چلے گی سرخ ٹوپی راج کرے گی پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ جیالوں کی جیت ہوگی، بھٹو شہید کا نام بلند ہوگا بی بی شہید کے نام کا سکہ چلے گا اور ’’دمادم مست قلندر ‘‘ہوگا جماعت اسلامی کہتی ہے کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کا خون رنگ لائے گا اور این اے ۔4کی سیٹ ہماری جھولی میں گرے گی دعویٰ سب کا درست ہے مگر عوام کا مزاج الیکشن کے دن معلوم ہوجائے گا یہ صرف ایک حلقے کا الیکشن نہیں بلکہ یہ پورے صوبے میں 2018کے انتخابت میں عوامی حمایت کا رُخ متعین کرنے والا واقعہ ہوگا صوبے کے مسائل اور عوامی جذبات این اے۔4کے عوامی مسائل اور جذبات کی طرح ہیں این اے ۔4کی طرح پورے صوبے میں صوبائی حکومت کے ساتھ عوام کا رابطہ منقطع ہے پورا صوبہ بے روزگاری ، مہنگائی ، غربت اور دیگر مسائل میں گھرا ہوا ہے سماجی ترقی کا عمل رکا ہوا ہے این اے ۔4کی طرح پورے صوبے میں بد انتظامی کا دور دورہ ہے قومی تعمیر کے محکموں کا بُرا حال ہے بلدیاتی اداروں میں افراتفری ہے این اے ۔4کی طرح پورا صوبہ مسائل کی اماجگاہ بنا ہوا ہے اگر این اے۔4کے عوام نے عمران خان کی بے داغ شخصیت کے سحر میں گر فتار ہوکر ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ 2018کے انتخابات میں بھی اکثریت پی ٹی آئی کی ہوگی حکومت انہی کی بنے گی پرویز خٹک ایک بار پھر وزیر اعلیٰ ہونگے اگر این اے ۔4کے عوام نے اس کے برعکس فیصلہ دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ 2018میں عوام کا فیصلہ مختلف ہونے جارہا ہے وہ زمانہ گذر گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے پشاور کے اس اہم حلقے کا انتخابی معرکہ دو انجینئروں کے لئے بھی زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے انجینئر امیر مقام اور انجینئر ہمایوں خان دونوں اپنی اپنی جماعتوں کی سربراہی کررہے ہیں دونوں کے پاس مستقبل میں وزیر اعلیٰ بننے کا مضبوط کارڈ موجود ہے اب یہ دونوں کا امتحان ہے کہ اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی خالی کی ہوئی نشست کس کی جھولی میں گرتی ہے؟ نیز اس حلقے میں جن پارٹیوں نے اتحاد کیا ہے ان کا اتحاد بھی 2018ء کے انتخابات میں متوقع اتحاد کی طرف اشارہ ہے اب میدان سج گیا ہے اور ’’پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں