290

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔ اہ فگار۔۔۔۔محمد جاوید حیات

میں اس کا ہاتھ چوما کرتا ۔۔اور پھر ہاتھ دل سے لگاتا ۔۔وہ ہاتھ چھڑاتا ۔۔ایک چمک اس لمحے اس کی آنکھوں میں اُتر آتی ۔۔پھر نام لیتا ۔۔بہت ساری باتیں کرتا ۔۔ہر لفظ میں ایک اپنائیت ہوتی ۔۔محبت کی خوشبو ہوتی ۔۔ایک آرزو ہوتی ۔۔گزرے وقت کا ایک عکس ہوتا ۔۔انجمن ترقی کھوار کا ذکر ہوتا ۔۔گلائے جفائے وفا ئے نما ہوتا ۔۔جس کانام لیتے صاحب ضرور کہتے ۔۔تاج فگار انجمن کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے تھے ۔کھوار زبان کے لئے اس کی خدمات بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یاد دلاتی ہیں ۔۔۱۹۴۳ء کو زرگراندہ میں لفٹننٹ عبدالرحمن کے ہاں ان کی پیدائش ہوئی ۔۔تعلیم سٹیٹ ہائی سکول چترال سے حاصل کی ۔۔محکمہ خزانہ میں کئی سال تک خدمات انجام دیتے رہے ۔۔پنشن لینے کے بعد صحافت سے وابستہ ہوئے ۔۔آپ انجمن ترقی کھوار کے بانی ارکان میں شمار ہو تے تھے ۔۔انجمن کے تمام اجلاس ،کاروائیاں ،مشاعرے آپ کے دولت خانے میں ہوتے تھے ۔۔آپ کا گھر گویا انجمن کا دفتر اور مرکز ہوا کرتا تھا ۔۔آپ نہایت فعال اور متحرک ہوا کرتے ۔۔مشاعرے میں شعر پڑھتے میزبانی ایک طرح کی ہوتی ۔۔ان کو کھوار ادب سے والہانہ محبت تھی ۔۔وہ ایک روایتی چترالی تھے ۔۔ان کی رگ رگ میں چترالیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔۔وہ بات کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے ۔۔یار لوگ اس کوغصہ دلا کر انجائی کرتے ۔۔وہ دوسرے لمحے پھر کمپرو مائیز پہ آجاتے ۔۔تاج غضب کے بزلہ سنج تھے ۔۔ظرافت اس کی پہچان تھی ۔۔سادگی ،یار باشی ،حساسیت ،مہمان نوازی اس کی عادت ثانیہ تصور ہوتے ۔۔اس کے سینے سے محبت کی کرنیں پھوٹتیں ۔۔وہ شرافت کا تاج محل تھے ۔۔وہ کھو تہذیب کا چلتا پھرتا سکول تھے ۔۔ان کو اس بات کا قلق تھا کہ ہماری تہذیب پنپتی نہیں ۔۔اس پہ دوسری تہذیبیں اثر انداز ہوتی ہیں ۔۔وہ ایک روایتی گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔۔اس لئے وہ چترالیت کے پاسبان تھے ۔۔وہ وسیع مشرب اور وسیع دسترخوان رکھتے تھے ۔۔سب سے کہتے کہ ’’تمہارا گھر ہے تم اپنے آپ کو مہمان کیوں سمجھتے ہو ‘‘ واقع ہوتا بھی ایسا ہم ان کے گھر میں کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ۔۔ان کا خلوص ہمیں کھینچ لے جاتا ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے جب انجمن ترقی کھوار کو سنبھالادیا تو آپ ان کے دست راست تھے ہم کالج میں ہوتے اور فیضی صاحب کے سپاہی ہوا کرتے ۔۔انجمن کے کام بڑے شوق سے کرتے ۔۔یہ فیضی صاحب کی کرشماتی شخصیت اور ان کی قربانیاں تھیں کہ انجمن کا ہر رکن اس کا پروانہ تھا ۔۔تاج صاحب ہر کام کے لئے خود تیار ہوتے ۔۔ہم ان کے ساتھ ساتھ ہوتے ۔۔ان کی شاباشی اور حوصلہ افزائی کا اور ہی انداز تھا ۔۔وہ انجمن کو ایک پہچان قرار دیتے ۔۔بعد میں جب انجمن کو ڈاکٹر صاحب کی سر پرستی نہ رہی تو انجمن کی سرگرمیوں میں وہ گہماگہمی نہ رہی ۔۔اور تاج صاحب ہمیشہ شکوہ کنان رہے ۔۔تاج صاحب کو ادب دوست لوگوں سے بہت محبت تھی ۔۔وہ کھوار کی کلاسکی موسیقی کو بہت پسند کرتے تھے ۔۔اس کو کھوار زبان کی شائستگی اور شرینی سے بہت محبت تھی ۔۔وہ زبان میں ملاوٹ کو سخت ناپسند کرتے ۔۔وہ معاشرے کا نبض شناس تھے اس کا قلم ہمیشہ معاشرتی ناہمواری کے خلاف متحرک رہا ۔۔اس کی ادبی اور صحافتی زندگی حق شناسی کی زندگی رہی ۔۔اس کی زندگی مسرت بھری رنگیں اور محبت بھری تھی اس کی جوانی مستی میں گزری تھی ۔۔کبھی شہسواری کبھی چوگان بازی کبھی ادب کی پر کیف محافل ۔۔اس نے بھر پور زندگی گزاری ۔۔اس کو اپنی ال اولاد سے محبت تھی ۔۔اس کے بچے اس کی محبت کے سحر میں مدہوش تھے ۔۔وہ ایک بے مثال باپ تھے ۔۔انھوں نے ان کو محبت کا سبق پڑھایا تھا ۔۔تاج وفا اور شرافت کے ’’سر تاج‘‘ تھے ۔۔وہ اپنی زات میں انجمن تھے وہ پرس کلپ کی رونق اور ہر ادبی انجمن کی جان تھے ۔۔تاج گلشن انسانیت کے ایک عطر بیز پھول تھے ۔۔جس کی خوشبو سے سارا گلشن معطر رہتا ۔۔اس کے دل میں محبت کے دریا ٹھاٹھیں مارتے ۔۔تاج سارے چترال کو سوگوار چھوڑ گیا ۔۔آپ کے نماز جنازے سے پہلے میں جنگ بازار کے گورستان شاہی میں داخل ہو ا میرے ساتھ شہزادہ مبشر بھی تھے ۔۔ہم بادشاہوں کی تربتوں میں جاکر دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے رہے ۔۔آج تاج بھی ایسا ہی مسافر تھے ۔۔جب آپ کے نماز جنازے میں کھڑا ہوا تو یکدم میرے آنسو رک گئے ۔۔کیونکہ میرے دل نے کہا کہ یہ خوش قسمت جمعہ کے دن اپنے رب سے ملنے جا رہا ہے اس کو بلایا گیا ہے ۔۔۔
بس میں اتنا کہہ سکا ۔۔
چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ بر روئے خاک
ہاں یہ تو ’’جان پاک ‘‘تھا اللہ اس کو جنت الفردوس عطا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں