410

صوبائی حکومت نے سکولوں میں ناپید سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ 35 ہزار سے زیادہ با صلاحیت اساتذہ خالص میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کئے /سیی ایم

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے کارکردگی کی بنیاد پر سزا و جزا کی موثر پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنایا جس کی بدولت داخلوں اور حاضری کی شرح میں اضافے اور معیار تعلیم میں بہتری کی ٹھوس داغ بیل پڑی ۔ہم نے سکولوں میں سہولیات کی کمی پوری کرنے کیلئے تعمیر سکول پروگرام شروع کیا تو دوسری طرف اساتذہ کے لازمی تربیتی کورسز کا اہتمام کیا ۔ماضی میں اساتذہ کے لئے کسی غلطی پر صرف سزائیں مقرر تھیں حسن کارکردگی پر انعام کاتصور نہیں تھا ۔ ہم نے2014میں اساتذہ کو انعامات دینے کا سلسلہ شروع کیا اور بہترین اساتذہ کو ساڑھے پانچ کروڑ روپے کے انعامات دیئے گئے۔اگلے سال گیارہ کروڑ روپے اور آج اتنی ہی مالیت کے ساتھ 4800 بہترین اساتذہ میں انعامات تقسیم کئے جارہے ہیں۔بہترین اساتذہ کے لئے ہمارا معیار یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو بروئے کار لا کر سکول میں داخلوں کی شرح بڑھائے ،میٹرک کے بہترین امتحانی نتائج دے اور اساتذہ و طلباء کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنائے ۔وہ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں بہترین اساتذہ اورپرنسپلز کوایوارڈ دینے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔اس موقع پر ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی مہر تاج روغانی، صوبائی وزراء محمد عاطف خان، امتیاز شاہد قریشی،قلند ر لودھی، و زیر اعلیٰ کے مشیروں عبد المنعم خان، شکیل خان اور دیگر ارکان اسمبلی و اعلیٰ حکام کے علاوہ اساتذہ برادری نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شروع دن سے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر لیا ۔ ہم فروغ تعلیم اور تربیت یافتہ افرادی قوت بالخصوص تعلیم و ہنرسے آراستہ نوجوان نسل کی تیاری ضروری سمجھتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوا ن بر سرروزگار ہو یا اُن کا اپنا کاروبار ہو وہی دراصل خوشحال مستقبل کا ضامن ہے۔ایسا نوجوان انتہا پسندی کی منفی سوچ سے آزاد ،با صلاحیت اور مفید شہری بن جاتا ہے۔وہ پورے معاشرے کے لئے اُمید اور ملک وقوم کی ترقی کاباعث بن جاتا ہے۔کوئی سکول مناسب کلاس رومز ، پانی و بجلی اور واش روم کی سہولیات کے بغیر مکمل نہیں کہلایا جا سکتا جن کی بدولت بچے بخوشی سکول میں داخل ہوتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی علم میں دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔افسوس کہ ماضی میں صرف سکول کی عمارات بنائی جاتی رہیں مگر ان میں مطلوبہ اساتذہ اور سہولیات کی فراہمی کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ہماری حکومت نے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی اربوں روپے کے خرچ سے نہ صرف نئے سکول تعمیر کئے بلکہ سب سے پہلے اور زیادہ توجہ موجودہ سکولوں کی حالت بہتر بنانے اور ان میں ناپید سہولیات کی فراہمی پر مرکوز رکھیں۔ہم نے ہر علاقے میں والدین کو بھی اساتذہ کی کمیٹیوں میں شامل کرکے اُن کے تعاون سے 20 ہزار سے زائد سکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی پوری کی تا ہم ان سے بھی زیادہ سکولوں میں سہولیات کی فراہمی باقی ہے جس کے لئے وسائل کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ماضی میں اسے ضروری نہیں سمجھا گیا اور دھڑا دھڑا سیاسی بنیادوں پر ایک یا دو کمروں کے نئے سکول تعمیر کئے جاتے رہے مگر ان میں چار دیواری سے لے کر پانی او رواش روم جیسی بنیادی سہولیات کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔اس لحاظ سے ہم نے تعلیم پر دوسرے تمام صوبوں سے زیادہ بجٹ خرچ کیا ۔ہمیں ماننا ہوگا کہ تعلیم کے حوالے سے ہمارا ماضی کبھی درخشاں نہیں تھابد قسمتی سے آزادی کے بعد سے شعبہ تعلیم کو انگریزی میڈیم ، اردو میڈیم یعنی سرکاری سکولوں اور دینی مدارس کے تین طبقات میں تقسیم کردیا گیا تھا ۔اگرچہ شروع میں سرکاری اُردو میڈیم سکولوں کا امتحانی معیار بھی بہترین تھا اور وہ خود سرکاری پرائمری سکول میں پڑھے مگر یہ بھی مشاہدہ رہا کہ آگے جاکر وہ انگلش میڈیم میں پڑھے طلباء کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ۔ جو معاشرے اپنے تعلیمی نظام پر توجہ نہیں دیتے تباہی اُن کا مقدر بن جاتی ہے ۔ہمارے کمزور تعلیمی نظام کی وجہ سے بدعنوان ٹولوں نے فائدہ اُٹھایا ۔ ذاتی پسند و ناپسند پر اداروں کو تشکیل دیا گیا جس کے نتیجے میں معاشرہ سماجی برائیوں کا شکار ہو گیا۔ معاشرے کے امیر طبقے سرمایہ داری میں آگے بڑھتے گئے اور معاشرے کا غریب طبقہ دن بدن غربت میں دھنستا چلا گیا۔ جن لوگوں میں خلوص تھا،جو وطن کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہیں جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا۔ ان پر قومی وسائل کے دروازے بند کر دیئے گئے ۔ سارا نظام اور تمام ادارے ایک خاص ٹولے کے مفادات کو تحفظ دینے پر لگا دیئے گئے۔ جس سے غریب اورامیر کے مابین فرق بڑھتا گیا۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے امیر و غریب کو تعلیم اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بنیاد فراہم کی۔ہم امیر وغریب کے درمیان اس فرق کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ سرکاری سکولوں کو پرائیوٹ اداروں کے برابر لاکھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرائمری کی سطح پر بنیادی انگلش کا آغاز کر چکے ہیں تاکہ غریب کا بچہ بھی آگے جاکر امیر کا مقابلہ کرسکے۔ اسی طرح سکولوں میں پرائمری کی سطح پر قرآن ناظرہ اور میٹرک کی سطح پر باترجمہ قرآن لازمی قرار دیا جس کی بدولت طلباء دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوں گے ۔ہمارے اقدامات کی وجہ سے صوبے میں سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ اب پرائیوٹ اداروں سے لوگ سرکاری سکولوں میں آرہے ہیں۔وہ وقت قریب ہے جب پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں داخلوں سے محروم ہونے والے طلباء ہی پرائیوٹ سکولوں میں داخل ہو ں گے ۔ ہم ایک ایسا نظام تعلیم دینا چاہتے ہیں جو ایسی افرادی قوت تیار کرے جو ملک وقوم کی ترقی کی ضامن بنے۔ جو اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازش کا مردانہ وار مقابلہ کر سکے۔ یہی ہمارا منشور اور ہمارا وژن ہے ۔آج ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر پوری ایمانداری سے یہ سوال پوچھنا ہو گا کہ آیا صرف سہولیات کی فراہمی سے تعلیم کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔میرے خیال میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے عمارات سے بڑھ کرسکولوں میں ایسی درسی کتب کی دستیابی ضروری ہے جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں ۔ ایسے امتحانی نظام کی ضرورت ہے جو بچوں میں رٹے رٹانے کی بجائے آزاد اور تخلیقی سوچ پروان چڑھائے ۔ہمیں امتحانات میں نقل کی لعنت جڑ سے اُکھاڑنے کی ضرورت بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے جو بچوں کی نفسیات کو سمجھ کر اُنہیں پوری اثر انگیزی کے ساتھ درس دے سکیں۔ہماری صوبائی حکومت نے سکولوں میں ناپید سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ 35 ہزار سے زیادہ با صلاحیت اساتذہ خالص میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کئے۔اب ہماری حکومت کی توجہ معیار تعلیم کی بہتری پر مرکوز ہو چکی ہے۔ہماری کوشش ہے کہ سکولوں میں بہترین تدریسی ماحول قائم ہو اور اُستاد و طالب علم کے درمیان بہترین روحانی رشتہ قائم ہو تاکہ سرکاری سکول سے فارغ التحصیل طالب علم کو اپنی تعلیم پر فخر محسوس ہو پرویز خٹک نے کہاکہ انہیں خوشی ہے کہ آج صوبے کے سرکاری سکولوں میں بہترین امتحانی نتائج دینے اور حسن کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے اساتذہ ، ہیڈماسٹرز اور پرنسپلز کو ایوارڈ دینے کے لئے جمع ہیں جو ہماری سزا و جزا پالیسی کا اگلا مرحلہ بھی ہے۔ہماری اولین ترجیحات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان بچوں کو بھی سکولوں میں داخل کرایا جائے جو غربت کے سبب کھیتوں ، گلی کوچوں ، گھروں اور ورکشاپوں میں مزدوری پر مجبورہیں۔ ہمارے ہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد یا توسکول میں داخلوں سے محروم رہ جاتی ہے یا درمیان میں تعلیم اُدھوری چھوڑ دیتے ہیں۔یہ شرح لڑکیوں میں زیادہ ہے۔البتہ ہمارا صوبہ وہ پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے سکول نہ جانے والے بچوں کے اعداد و شمار خصوصی طور پر جمع کئے اور اس کے لئے جامع سروے کیا۔ہمیں جلد اس کا واضح طور پر علم ہو گا کہ سکول نہ جانے والا ہر بچہ کہاں ہے اور وہ کیوں تعلیم سے محروم ہے۔ان معلومات کی بنیاد پر ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو دوبارہ سکولوں میں لانے اور اس مقصد کے لئے فنڈ مختص کرنے کے قابل بنیں گے ۔ہم ایسے حالات بنائیں گے کہ بچوں اور اُن کے والدین کے لئے تعلیم میں کشش اور آسانیاں پیدا ہوں ۔ ہم اُن علاقوں میں نئے سکول بنائیں گے جہاں ان کی ضرورت ہو گی ۔ہم ان بچوں کو درسی کتب بھی مفت مہیا کریں گے ۔ہمارا مشترکہ ہدف یہ ہونا چاہیئے کہ پاکستان میں کوئی بھی بچہ معیاری تعلیم سے محروم نہ رہنے پائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں