256

ڈی سی چترال کی دبنگ انٹری ……… کریم اللہ

دپٹی کمیشنر چترال جناب ارشاد سودھر اپنے عہدے کا چارچ سنبھالتے ہی گزشتہ دونوں ڈی ایم ایس (ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال) سمیت ہسپتال کے دو اہلکاروں کی معطلی کا حکم صادر کیا وجہ سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو تھی جس میں ایک گاڑی فضلات کو دریائے چترال میں ڈال رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ گاڑی دراصل ایمبولینس ہے جس میں کوڑا کرکٹ بھر کے دریا برد کیا جارہا ہے ۔لیکن ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں ان تینوں افراد کو اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برتنے باالفاظ دیگر فضلات کو دریا میں پھینکنے کی وجہ سے معطل کر کے مزید تفتیش کے لئے ٹیم تشکیل دیا گیا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کوڑا کریکٹ کو دریا میں پھینکنا ایک سنگین جرم ہے جس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہئے ۔ لیکن زیر نظر کیس کا اگر غیر جانب داری سے مطالعہ کیا جائے تو اس ایشو کو ہوا دینے اور پھر ہسپتال کے اسٹاف کے خلاف کاروائی کرنے میں سوشل میڈیائی پروپیگنڈے کا بڑا اثر تھا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے سستی شہرت کی خاطر تحقیق اور مسئلے کی جڑ تک پہنچے بنا حکم نامہ جاری کرکے اپنے مداحوں کا دل جیت لیاہے۔ درحقیقت ہر شہر بالخصوص ہسپتالوں میں موجود کوڑا کریکٹ کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری ہسپتال انتظامیہ کی نہیں بلکہ تحصیل میونسپل ایڈمینسٹریشن کی ہوتی ہے ۔ جن کی گاڑیاں بازاروں اور اس قسم کے عوامی مقامات میں جمع شدہ کچروں کو اٹھا کر ٹھکانے لگاتے ہیں ۔لیکن ڈسٹریکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے اعلی حکام کے مطابق ٹی ایم اے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں بلکہ کئی سالوں سےہسپتال میں جمع شدہ کوڑا کریکٹ کو ہسپتال انتظامیہ خود ٹھکانے لگاتے آرہے ہیں ۔ جبکہ ان کے پاس کوئی معقول کچرا کنڈی ہی نہیں جس کا ٹی ایم اے ، ضلعی انتظامیہ ، ضلع ناظم ، ایم پی ایز اور ایم این سمیت سارے عہدے داروں کو علم ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق جس گاڑی کو ایمبولینس بنا کے پیش کیا گیا دراصل وہ ہسپتال کے زیر انتظام استعمال ہونے والی ایک پرانی گاڑی ہے جو 2012ء سے فضلات کو ٹھکانے لگانے میں استعمال ہورہا ہے، ٹی ایم اے اور ضلعی حکومت سے ان فضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئےگاڑی کی فراہمی کا باربار مطالبہ کیا گیا لیکن وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہسپتال انتظامیہ کے مطابق جو کام تحصیل انتظامیہ کو کرنا چاہئے وہ ہسپتال انتظامیہ باامر مجبوری اپنی جانب سے سرانجا م دے رہی ہیں ۔ ان کے مطابق فضلات کو ضائع کرنے کے لئے ہسپتال میں انسینریٹرنامی مشین موجود ہے جس کو چلانے کے لئے 220 وولٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ چترال ٹاؤن میں بجلی کا شدید بحران ہے اگر بجلی کی آنکھ مچولی ذرا رک بھی جائے تو کم وولٹیج کی وجہ سے یہ مشین کام نہیں کرسکتے ، ہسپتال انتظامیہ کے پاس اس مشین کو چلانے کے لئے بڑے جنریٹر اور فیول کو برداشت کرنے کے لئے بجٹ نہیں ۔ ایسی مشکلات صورتحال میں ایک ویڈیو کودیکھ کر ڈپٹی کمشنر چترال کی جانب سے ہسپتال کے تین عہدے داروں کو معطل کرنے سے وقتی طورپر سوشل میڈیا میں کافی شہرت ملی لیکن لگتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کا یہ اقدام خود ان کے انتظامیہ کی غفلت پر پردہ ڈالنے کے اور کچھ نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں