444

انجمن تحفط حقوق شوہران …… کا قیام۔۔۔۔تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک * انوکھاخواب۔

ان دنوں PTDC میں دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے زیر اہتمام ایک کورس جاری تھا جس میں انٹرنشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسرز صاحبان چترال کے اہل قلم کو علم و اگاہی سے مزین کرنے کا فریضہ نبھا رہے تھے۔ پہلے بھی چترال اور اسلام آباد میں ان علمی محافل میں شرکت کے مواقع میسر آئے اس بار مجھے اور پروفیسر شمس النظر صاحب کو مرحوم پروفیسر عبیدالرحمان کی یادین ستاتیں رہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ انہیں ہم نے یاد نہ کیں ہوں ۔ گزشتہ رات وہ خواب میں تشریف لائے ایک خوبصورت چمن میں بچوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں مصرف کلاس تھے میں اجازت کا اشارہ پاکے قریب گیا اور جھک کے سلام کیا تو آپ نے اتنا ہی کہا ’’ میں ناراض ہوں تم نے حسب وعدہ اس تنظیم کے بارے میں نہیں لکھا جو ہم نے مل کے ترتیب دیا تھا اور اس کے … چیرمین بڑے زبردست… بندے کو بناآئے تھے۔‘‘ میری آنکھیں بیدار ہوئیں تو مرحوم کو ڈھیرساری دعائیں دیں کچھ آنسو بہائے۔اور ’’ و الیم ٹن ‘‘ کی طرح اس بین کیے ہوئے ’’ دستاویز‘‘ کو پبلک کرنے کا فیصلہ کچھ اضافی ممبران کے ساتھ کیا لہذا اس کا اصل محرک مرحوم پروفیسر ہیں۔آپ سب پر لازم ہے کہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے رب کائنات کے حضور ضرور التجا فرمائیں۔
* کار خیر۔
دیر کر دی مہرباں آتے آتے ۔۔۔۔۔ کے مصداق آ خر کا ر ….. ائے ٹی ایچ ایس….. کا قیام عمل میں آہی گیا….. اس جدوجہد میں کتنوں کاخون پسینہ شامل ہے…. یہ ایک الگ کہانی ہے … بحرحال دیر اید درست اید…. کا ورد کرتے ہوئے ہم اس عظیم مقصد کی کامیابی کے لیے…. دل بے تاب …. کی عمیق گہرایوں سے دعا کرتے ہیں….. بس عرض اتنا ہے کہ ’’ہمارئے گھر میں نہ بتایا جائے….. ورنہ ہمارئے ساتھ بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے …. جو اس انجمن کے…. نگہبانوں کے ساتھ شب و روز ہورہاہے….
؂ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و راسن کہاں
پھر بھی ’’ مظلومین چترال سے التجا ہے کہ اس ’’ کار خیر ‘‘ میں اگر بنفس نفیس شامل نہ بھی ہوسکیں تو کم از کم اس ’’ راہ پرخطر‘‘ کے ’’ فدائین‘‘ کے لیے گھر میں ممکن نہ ہو تو مساجد میں دعا ضرور کروائیں… کہ رب کریم ہمارے ’’ سر فروشوں‘‘ کوکا میاب وکامران فرمائیں اور انہیں دوسروں کے لیے … دیدہ عبرت… بنادے تاکہ دیگر مظلومین بھی ان کی ’’حیات آفرین‘‘ سے سبق حاصل کر سکیں۔ان دعائیہ کلمات کے ساتھ میں اس انجمن کے عہدہ دارن کا تعارف ان کے آسمائے گرامی کو ’’ صیغہ راز ‘‘ میں دفنا کر ( تاکہ ان کے ’’ شہد سے شرین زندگی ‘‘ کے آیام میں مزید بونچھال اور کمی واقع نہ ہو ) صرف اشاروں میں ان کا محل وقوع اور حالات خرابات کی نشاندہی پر ہی اکتفا کروں ۔تاکہ ان سے رابطہ کرنے میں … ہمہ یاروں دوزخ کو آسانی ہو… اور وہ حوصلہ و جرت کی دریا میں … خیالی… ہی صحیی ’’ گدھا ‘‘ دوڑاتے ہو شامل ہوسکیں ۔ کیونکہ دوڑانے کے لیے … گھوڑوں پر سرکاری قبضہ ہوچکا ہے… محترم انکل اسیر ؔ نے مشکل آسان کر دی ہے کہ ایون میں 500 سے زائد ’’ گدھوں کے بچے ‘‘ دستیاب ہیں آپ وہاں سے بھی اور اگر ایون والے … شعراء کرام کے دلوں میں گھر کر چکے ہوں تو انصاف کے… اصطبل… میں چینا ٹیکنالوجی سے مزین … ٹائیگرز نما گدھے بھی دوڑانے کو پا سکتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ دوڑایا جائے۔ تاکہ ہم سب کا بلا ہوسکے… ATHS کے ذمہ دراں کاکوئی فون نمبر، میل بکس موجود نہیں کیونکہ آج کی دنیا میں اپنا… فیس … بک کے ذریعے دیکھانے سے بہتر ہے کہ PIA چوک میں یہ اعلان کرایاجائے کہ ’’ آ بیل مجھے مار ‘‘ اس کے علاوہ سیکورٹی کے ہمارے ادرے بھی بہت متحرک ہیں جواگر چہ ’’ہاتھی حضور ‘‘ کو تو ’’ نگل ‘‘لیتے ہیں مگر ’’ غریب مچھر ‘‘ کو ضرور ’’ چھان ‘‘لیتے ہیں۔جب سے … تحفظ خواتین … بل آئین کا حصہ بنا ہے تو ’’ مرد ‘ ‘ حضرات کی صف سے نکل کر حشرات کی صف میں ’’ جوتے‘‘ کھا رہے ہیں ۔ اس لیے … قارئین صف شکن… ہم آپ سب کے صف توڑ کے بھاگنے کی … زحمت… گوارہ نہیں کرسکتے ۔ اب ہم تمہیدی رسی کو لپیٹ کر تعارفی ’’ دریچہ ‘‘ کھول دیتے ہیں۔ تاکہ آپ پنجوں کے بل کھڑے ہوکر ’’ ظلمتوں ‘‘کی اس وادی میں جھانگ کر ’’ عظمتوں کے پہاڑ ‘‘ اپنے بھائی بندوں پر ظلم و جفا کے مناظر ملحضہ فرماسکیں جو آپ کی بھرپور توجہ اور نصرت کی امید لیے… آنکھیں چار نہیں آٹھ کیے ہوئے بیٹھے ہیں۔
* چناروں کے سائے میں۔
یہ ایک زبردست قسم کے ’’ دانش ور‘‘ ہیں گھر کے باہر۔ اندروں خانہ دانش نام کی کوئی چیز ان کے کام نہیں آتی۔ ’’ صبر جمیل‘‘ کے زندہ مثال ہیں ۔ دوسرے معصومین کو بھی بسا اوقات ’’ صبر جمیل ‘‘ کی ٹیوشن کرواتے ہیں۔چناروں تلے زیست کے آیام … آبشار… کی دھن پر گزار رہے ہیں۔ دو کشتیوں کے مسافر ہیں ۔ انجمن کے چیرمین کے لیے ان کے پائے کا کوئی امید وار دستیاب نہیں لہذا اپنے CV میں بہت سارے تلخ تجربات رکھنے اور ٹنوں جتنے دردناک ’’ اسناد ‘‘رکھنے کی پاداش میں تعزرات کھوستان کے تحت انہیں تا حیات چیرمین بنانے کی سزا دی جاتی ہے۔ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سابق ناگفتبہ حالات پر ترس نہ کھاتے ہوئے ایک اور بلا کے ساتھ شادی رچائی اور اب ’’ خود کردہ را علاج نیست ‘‘ کے مصداق ؂ پی جا آیام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے۔
کو دوھراتے ہوئے سمیناروں ، ورکشابوں اور ادبی محافل میں نظر آتے ہیں۔ ایک بار کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوئے تو فرمایا ’’ بڑی بیگُم ‘‘ میرے دھڑی کے ’’کالے بال ‘‘ یہ کہہ کر اکھڑ لیتی ہیں کہ آپ … برآق … کی طرف دلکش ہوتے جارہے ہیں اور یہ کالے بال مزا ہی پھیکا کرتے ہیں جبکہ ’’ چھوٹی بیگُم ‘‘ کو ’’سفید بال ‘‘ زہر لگتی ہیں اور وہ سفید بالوں کی دشمن بنی ہوئی ہیں اس طرح میں ’’ کھو اسکالر ‘‘
کم اور ’’ انڈونیشین اسکالر ‘‘ زیادہ لگنے لگا ہوں… کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ہے؟
* تیار کمانڈو۔
اس عظیم ہستی کو دیکھ کر ایمان ’’ تازہ ‘‘ ہوجاتا ہے زندگی کے اننگز میں ’’ ففٹی ‘‘ سے زیادہ رنز بنا چکا ہے لیکن اپنے بہترین خدو خال ظاہری چمک دمک ٹھاٹ باٹ اور چاقو چوبند رہنے کی بدولت ’’ کمانڈو ‘‘ نظر آتے ہیں دیکھنے میں ایسا لگتا ہے ابھی سیٹی بجے گی اور یہ ’’ دوڑ ‘‘ لگا ئے گا حضرت اقبال سے ان کے ’’ غایبانہ تعارف ‘‘ کے اثرات ’’ والیم ٹن ‘‘ میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اور حضرت نے ان ہی کے لیے فرمایا تھا ۔’’ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے اس نے۔ اس لیے یہ گھوڑے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں گھر کی بلا سے بھاگ کر روڈوں ، دریاہوں اور پہاڑوں میں ’’ گاڑی دوڑوانے ‘‘ سے باز نہیں آتے ۔ اس لیے ’’ٹر فیک قوانین‘‘ اور اپنی جان کو( جو ’’ بلا ‘‘ کے رحم وکرم پہ ہے )خطرے پہ ڈالنے کے جرم میں انجمن کے لیے ’’ وزیر مواصلات ‘‘ بنانے کے ارڈر جاری کیے جاتے ہیں کہ دیگر ممبران کا کام بھی جلد’’ مُک ‘‘ سکے۔
* چھپے رستم۔
کسی زمانے میں ’’ ادب ‘‘ کی دنیا سے وابستہ رہے ’’ انواز ‘‘ کی ہوائیں بھی چلائیں جب سے ایکNGO کے ہوے تب سے ’’ علمی دنیا ‘‘ کو اتنا ہی نقصان پہنچایا جتنا ’’ سونامی ‘‘ نے KPK کو ۔بسا اوقات دو دو بچوں کوبغل اورکندھوں میں بیٹھائے پولو گڑاونڈ میں نظر آتے ہیں۔ایک ایسی بلا کے ساتھ زندگی کے بندھن جوڑے ہوئے ہیں جو ’’ مقناطیس ‘‘ کے مخالف پول کی طرح ہاتھ آنے کا نام نہیں لیتیں ۔ اس لیے یہ اکثرو بشتر ’’ رہبانیت ‘‘ کی راہوں کے راہی بن کے شیشی کوہ اور مدک لشٹ کے جنگلات میں ’’ مراقبے ‘‘ کرتے ہوئے پائے گئے ہیںْ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ’’ کھوستان ‘‘ میں رہبانیت پر پابندی ہے کیونکہ اس اقدام سے مردانہ وجاہت میں کمی آجاتی ہے اور مرد حضرات کمزور ہوکے ’’ بچے پالنے اور برتن دھونے ‘‘ سے قاصر نظر آتے ہیں لہذا جرم کو سنگین نصور کرتے ہوئے مجرم کو تا حیات انجمن کے ’’ جنرل سیکٹریری ‘‘ بننے کی سزا دی جاتی ہے۔تاکہ کوئی چھپا رستم … چھپ کے … مراقبہ نہ کرسکے۔
* سخت جان۔
ان کے تعلیمی ’’ جراثومے ‘‘ ’ ’ امتحانات ‘‘ کے دنوں میں بیدار ہوتے ہیں تو ان کے چمن میں ’’ رنگ برنگی مرغیاں ‘‘ انڈے دیتے ہوئے اور ’’ مرغا حضور ‘‘ بانگ دیتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔جب ان کی دولہن غوگئے سے اپنے دوگزی ’’ پاؤں ‘‘ زمین پہ رکھ رہیں تھیں تو سب لو گ یہ سمجھ رہے تھے کہ دلہن ’’ اسکیٹینگ‘‘ کے بوٹ پہن کے برف میں دوڑنے آئی ہوں بعد میں پتہ چلا کہ اس کے پاؤں ہی ماشا اللہ…. دو گزی ہیں ۔ پھر کیا تھا ہمارے دوست کی تمام خوشایان دم توڑ گئیں اسپورٹس اور اسکا وٹینگ کا نشہ اتر گیا اور ان کے شب و روز. برتن مانجھنے میں گزرنے لگے اور ان کے لبوں سے عابدہ پروین کی یہ غزل لپک لپک کے باہر نکل رہی ہے۔
؂ برتنوں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو میں نے دھو دھو کے ابھی تم کو سجا رکھا ہے۔
ان کے امور خانہ داری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں انجمن کے لیے ’ ’ اسحاق ڈار‘ کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔اللہ خیر کرے۔
* میڈیا مین۔
میڈیا کی ’’ دنیا ‘‘ کے شہسوار ہیں سرو قامت ہیں وہ بھی جلے ہوئے ۔اکثر فیس بک میں اپنے ستم رسیدہ تصاویر پوسٹ کرتے ہیں جنہیں دیکھ 2150 ء کے شادی کے خواہش مند آروح بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ سوکھ کے کانٹا بن گئے ہیں تاکہ ’’ جورو ‘‘ کو چُب سکیں ۔ جسٹس کیانی اگر آج زندہ ہوتے تو ان کے مقابلے میں خود کو ’’ ہوی ویٹ ‘‘ محسوس کرتے جب سے ’’ میرزا کچیٹ ‘‘ سے شادی رچا چکے ہیں ۔ ایک غیرمصدقہ اطلاع کے مطابق انہیں گھر میں کبھی مسکرنا نصیب نہ ہوا ۔ مسکرانے کو دل چاہے تو
’’ پرس کلب ‘‘ آتے ہیں تاکہ سند رہے ۔ بھلے وقتوں میں رونے کو جی چاہتا تو مرحوم فگارؔ علیہ رحمہ سے لپٹ کر اتنی درد ناک آواز سے رولیتے کہ مریضان ہسپتال ورڈوں سے باہر نکل آتے۔ اب وہ سہارہ بھی نہیں رہا ۔لہذا پرس کلب جاتے ہوئے کمزور دل حضرات کو احتیاط کی شدیدضرورت ہے ۔ ان کے دولت کدے کا کوئی دروازہ موجود نہیں ایسالگ رہا ہے یہ گھر نہیں ’’ شتر مرغ کا انڈا ‘‘ ہے معلوم نہیں یہ خود اس انڈے میں کیسے داخل ہوتے ہیں ۔اس ماڈرن دور میں جہاں ایک SMS مار کے لوگ کڑیوں کو ماموں بنالیتے ہیں مگر یہ ایک ’’ جننی ‘‘ کے ساتھ رہ کے ’’ مہمانوں ‘‘ کودوسرے جہاں میں ڈنر دینے کا ’’ تبلیغیانہ ‘‘ ارادہ رکھتے ہیں ۔ اس جہاں میں ہم جب بھی ان سے ڈنر کا تقاضا کر تے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ملتا ہے۔
؂ یہاں ایک پل کو نہیں چین میسر بھی مجھے اس نے بندر کی طرح مجھ کو ناچا رکھا ہے۔
ان کے فولادی عزایم اور جرت کو دیکھتے ہوئے انہیں انجمن کے لیے ’’ وزیر اطلاعات ‘‘ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ اپنے ساتھ ساتھ دیگر ستم رسیدگان کے حالات سے بھی GIT کو باخبر رکھ سکیں۔
* مظلوم اعظم۔
قانوں کی دنیا کے سپوت ہیں ۔ اگر چہ اپنے حقوق کے حوالے سے’’ برما کے مسلمانوں ‘‘ جیسے ہی ہیں لیکن دوسروں کے حقوق کی جنگ زوروں سے لڑتے ہیں اور غالب کی طرح ؂ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ سے متاثر ہوکے گھر میں نہایت ہی ’’ نیاز مند ‘‘ واقع ہوئے ہیں ۔ایک دینی پارٹی میں بڑے دھرنے مارنے کے بعد بھی جرت رندنا پیدا نہ کر سکے اب ’’ن ‘‘ کی کشتی میں سوار ہیں کہ کب انہیں پار لگا دے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’ وزیر انصاف ‘‘ کی ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔
تاکہ اسناد میں ٹمپرنیگ کر کے اس عہدے کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔میں نے انہیں خفیہ مبارک باد ارسال کیا تو ’’ان نون‘‘ نمبر سے SMS ملا ۔ ؂ میں جو اترونگا کبھی ، تو نبھا سکوں گا اسے اس نے سولی پہ مجھے کب سے چڑھا رکھا ہے۔
* مسیحا عصر۔
قد کے اگرچہ چھوٹے ہیں مگر کام کے بہت بڑے ہیں ۔بے قراریوں کا مجموعہ ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکڑ ہیں ۔ مریض کے معائنے کے دوران اگر ’’ ظلمہ ‘‘ کا فون آجائے تو تھرمامیٹر مریض کے منہ چھپا کر گھر پہنچے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ گھر میں اکثر بچوں کے ساتھ ’’ چُھپ چھپائی ‘‘ کا کھیل شوق ذوق سے کھیلتے دیکھے گئے ہیں جب ’’ ظلمہ ‘‘ کی بے رحم نگائیں انہیں میز کے نیچے دیکھ لیتی ہیں تو ’’ بھیگا بلا ‘‘ بن کے یہ گالیتے ہیں
۔ ’’ میرے مرنے کی خوشی ان کو بہت ہے یارو میں نے بیگم سے ابھی خود کو چھپا رکھا ہے۔
بہادری کی دنیا کے اس عظیم سپوت کو اگرچہ ’’ نشان حیدر ‘‘ ملنا چاہے تھا جو حیات میں ممکن نہیں لہذا انہیں ’’ وزیر صحت ‘‘ کا رتبہ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ یہ کچھ کھا پی کے جان بنا سکیں۔
* شاعر درد۔
نرالے شاعر ہیں ۔ اشعار ان کے گھر کے باہر دھرنا دیے رہتے ہیں جب چاہیں اور جس وقت چاہیں … شعر مار سکتے ہیں
۔ اتنے ستائے ہوئے ہیں کہ کسی بھی خاتون کو دیکھ کر انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ نہ آجائے۔ ’’ وجود زن سے ہے تصویر کا ئنات میں زنگ‘‘
کے قایل ہیں انہیں جب اور جہاں بھی مواقع میسر آجائے ’’ قصہ درد‘‘ سنانے میں اور بیگم سے بچنے کے’’ انمول ٹوٹکے ‘‘ بتانے میں ’’ بخل ‘‘ سے کام نہیں لیتے۔ ایک مرتبہ انٹی صاحبہ کے ساتھ ایر پورٹ میں نظر آئے میں نے احوال پوچھا تو ’’ تریچ میر ‘‘ جیسی ٹھنڈی آہ بھر بھر کے بولے ؂ دل تو چاہتا ہی نہیں ایک پل دیکھوں بھی اسے اس نے مار مار کے مجھے اپنا بنا رکھا ہے۔
ان کی گران قدر خدمات اور ’’ گواتناموبے ‘‘ جیسی زندگی کے طفیل انہیں تاحیات اس انجمن کا ’’ سرپرست اعلیٰ ‘‘ بنایا گیا ہے۔
* ڈونرز۔
کسی بھی تنظیم اور ریاست کو چلانے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اگر مسلمانوں کی ریاست ہو تو اسے اور بھی دوسرے کے رحم وکرم پر ’’ چاروں شانے چیت لیٹنے ‘‘ کے مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ ان مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اس تنظیم کے مالی معاونت کے لیے کھوستان سے باہر کچھ ’’ ڈونرز ‘‘ کا انتخاب ( ان کے ’’ نسوانی یلغار ‘‘ کے مقالات جن پر انہیں PHD کی ڈگریز دی گیں ہیں ) کیا گیا ہے ۔ یہ سب ’’ فراری کمپ ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں ایک بڑا نام ان میں ایک ’’ ہیلی کاپٹر ‘‘ میں بیٹھ کر دور ہی دور سے مظلومین کے نگر کا نظارہ کرنے والے کا ہے جو عید پہ عید مالی اعانت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ ایک اور صاحب ہیں بہت ہی بڑے پوسٹ پہ جلوہ افروز ہیں آگے پیچھے سائرن بجاتے ہوئے گاڑیاں ہیں تاکہ بیگم کے ہاتھ نہ آسکیں۔ ایک اور فراری ’’ نیپال ‘‘ میں چھپے ہوئے ہیں بیگم سے پوچھے بغیر پانی بھی نہیں پی سکتے لیکن انجمن کی مالی اعانت فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ایک اور فراری ڈونر امریکہ میں آباد ہیں ۔ڈونل ٹرم سے متاثر ہیں ’’ جج چھوانہ ‘‘ زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی ایک جگہ ٹکتے نہیں ہم نے اس ’’ موبائلانہ ‘‘ زندگی کے راز معلوم کیے تو فرمایا ؂ میں اور ٹھیروں : مبشرؔ یہ توممکن ہی نہیں اُس نے لٹو کی طرح مجھ کو گماُ رکھا ہے
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے… اور … سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔
(نوٹ) ضرورت پڑنے پر ان اراکین میں اضافہ کیا جاسکتا ہے خواہش مند حضرات اپنا Cv ہمیں میل فرمائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں