225

ضلع مستوج کا قیام ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔کریم اللہ

ان دنوں سوشل اور چترال کے مقامی میڈیا میں خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ضلع مستوج کی بحالی اور اس حوالے سے سیاسی کریڈٹ لینے نیز نئے قائم ہونے والے ضلع کے نام سے متعلق گرما گرم بحث ومباحثوں کاسلسلہ جاری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا چترال کو انتظامی لحاظ سے دو اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع مستوج کی بحالی محض افواہ ہے یا ان کا عملی جامہ پہنا بھی ممکن ہے ؟ کیونکہ نئے ضلع کی تشکیل کے لئے انفراسٹریکچر سمیت ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے ، انتظامی مشینری کو چلانے کے لئے آٹھ ہزار سے دس ہزار ملازمین درکار ہے۔ اگر ضلع مستوج کی بحالی عمل میں آتی ہے تو انتظامی امور نمٹانے کے لئے دفاتر اور ملازمین کہاں سے آئینگی؟ دفاتر کے قیام اور ملازمین کوبھرتی کرنے کے لئے کم وبیش دس ارب روپے درکار ہے اتنی خطیر رقم کہا ں سے لائی جائے گی ؟ کیا یہ سب کچھ محض الیکشن قریب آنے کے بعد سیاسی مفادات کے لئے عوام کو دی جانے والی ”لولی پاپ” تو نہیں ؟ ڈی سی، ڈی پی او،ڈی آر او، سیشن کورٹ سمیت 19ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لائے بنا ضلع کا قیام صرف محض دکھاوے کے کچھ نہیں ۔ نئے بننے والے ضلع کا نام کیا ہونا چاہئے ؟ نئے بننے والے ضلع کے نام کے حوالے سے سوشل میڈیا ئی دانشور گر ما گرم بحث ومباحثوں اور ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں ایک طبقے کا خیال ہے کہ چونکہ تاریخی لحاظ سے سب ڈویژن مستوج 1953ء سے مئی 1969یعنی سولہ برسوں تک ضلع کیہ حیثیت سے موجود تھی ۔ 29جولائی 1969ء (چترال اور الحاق پاکستان ،ص106)میں چترال کی آزاد حیثیت کا خاتمہ ہوا تو اس کے ساتھ ہی مستوج کی ضلعی حیثیت کو بھی ختم کرکے ایک ضلع چترال کے طوپر ملاکنڈ ڈویژن میں ضم کردیا ، جو کہ یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف تھا۔ وقتا فوقتا ضلع مستوج کے بحالی کی تحریک چلتی رہی۔ ایک گروپ کا مطالبہ ہے کہ چونکہ پرانے ضلع کی بحالی ہورہی ہے تو اس کا نام ضلع مستوج ہی رکھا جائے ۔ جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ مستوج کوئی نام نہیں بلکہ ضلع کا نام اپر چترال رکھا جائے، ”چترالی” کو وہ اپنی شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یوں ہے کہ نہ تو چترال اس پورے خطے کا نام ہے اور نہ ہی مستوج ۔ چیو پل سےچترال گول کے درمیان واقع علاقے کا نام چھترار ہے ۔اسی طرح چترال سے 100 کلومیٹر بالائی جانب واقع ایک گاؤں کا نام مستوج ہے ۔ البتہ انتظامی لحاظ سے جہاں پورے خطے کو ضلع چترال /چھترار کہا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح چترال کے بالائی حصے جس کی سرحدبرنس اور ریشن کے درمیان کھونگیر دیرو بھورت سے شروع ہوتی ہے کو انتظامی وعدالتی دستاویزات میں سب ڈویژن مستوج کہا اور لکھا جاتا ہے۔ گویا سرکاری کاغذات میں درج سب ڈویژن مستوج تو سب کے لئے قابل قبول ہے لیکن انہی کاغذات میں سب ڈویژن کو ہٹا کر ضلع مستوج رکھنا قابل قبول نہیں ۔ چترال یا چترالیت کوئی شناخت نہیں بلکہ اس ضلع کے اکثریتی آبادی کھو نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، اگر شناخت کی بات ہے تو پھر کیوں نہ دونوں اضلاع کو اپر کھووستان اور لوئر کھووستان رکھا جائے تاکہ شناخت کا بحران ختم ہو سکے ۔ نئے بننے والے ضلع کا ہیڈکوارٹر کہاں ہونا چاہئے؟ بعض لوگوں کی دلیل ہے کہ ضلع کانام مستوج رکھ کر ہیڈکوارٹر کو بھی مستوج میں لے جانے کی سازش ہورہی ہے ، حالانکہ یہ سر سر احمقانہ سوچ ہے ، اگر ضلع مستوج کا قیام عمل میں آتا ہے تو دو مقامات ہی ضلعی ہیڈکوارٹر کے لئے موزوں ہے یا تو قاقلشٹ میں آباد کاری اور دفاتر کا قیام عمل میں لاکر ہیڈکوارٹر وہاں منتقل کیا جائے یا پھر بونی سے 25کلومیٹر بالائی جانب ویلج کونسل پرواک میں نصرگول یا پرواک لشٹ میں نئے ہیڈکوارٹر کے دفاتر کو قائم کرنا پڑے گا۔ وگرنہ بونی میں قیمتی اورآباد زمینوں میں بلڈنگ تعمیر کرنا ماحولیاتی تناظر میں بہت بڑا جرم ہے ، اس کے مقابلے میں قاقلشٹ میں فری زمین مل سکتی ہے ،البتہ وہاں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ گھمبیر ہے جبکہ پرواک اس لحاظ سے سب سے بہتر اپشن ہے کیونکہ وہاں مین روڈ کے ساتھ سستے داموں زمین مل سکتی ہے جبکہ وہاں پائپ لائین بھی موجود ہے اور مزید پانی کا بندوبست کرنا بھی باآسانی ممکن ہے ۔ اس کے علاوہ بونی ریڈ زون پر واقع ہے جس کے اوپر بہت بڑا گلیشئر موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں ضلعی ہیڈکوارٹر کا قیام خطرے سے خالی نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں