283

ایک اور متنازع فیصلہ۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

ایک فیصلہ 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے سنایا جس میں ایک اقامے اور خالی اکاؤنٹ کو بنیاد بنا کر منتخب وزیرِاعظم کو چلتا کر دیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ میاں نوازشریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی لیکن وہ لے تو سکتے تھے اِس لیے یہ بھی اثاثہ ہے ۔اثاثے کی یہ تعریف بلیک لاء ڈکشنری سے لی گئی۔ اب نوازلیگ بلیک لاء ڈکشنری کے سارے ایڈیشن اٹھائے پھرتی ہے کہ اِس میں تو اثاثے کی ایسی کوئی تعریف درج ہی نہیں۔ بہرحال فیصلہ تو ہوگیا اور اب اِس فیصلے کی گونج فضاؤں میں ہے ۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس نے ترقی کا پہیہ جام کر دیا،سٹاک مارکیٹ 52 ہزار پوائنٹ سے 39 ہزار تک گر گئی اور سرمایہ کاروں کے کھربوں ڈوب گئے۔ اِس فیصلے پر اپوزیشن ،خصوصاََ تحریکِ انصاف نے بغلیں بجائیں کہ ’’گو نواز گو ‘‘ ہوگیا لیکن اب جابجا ’’گو جمہوریت گو‘‘ کی باس بھی آنے لگی ہے۔ کہیں مارشل لاء کی باتیں ہیں تو کہیں قومی حکومت کا غلغلہ ۔یہ بجا کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہہ دیا کہ مارشل لاء کا کوئی امکان ہے نہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا۔ اِس کے باوجود کوئی اِن باتوں پہ یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ جب سات گھنٹوں تک کورکمانڈر بند کمرے میں بیٹھے اندرونی وبیرونی حالات پر غور کررہے ہوں اور کوئی بریفنگ بھی نہ آئے،معاشی صورتِ حال اور غیر ملکی قرضوں پر گہری تشویس کا اظہار کیا جائے تو پھر سب اچھا کی نوید پر کون اعتبار کرے گا۔ تاریخِ پاکستان کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے ،ایسے ہی حالات ہمیشہ مارشل لاء پر منتج ہوئے ہیں۔ اب اگر ملکی فضائیں ایسی ہی آوازوں سے مسموم ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں۔کسی وقت بھی کوئی ’’انہونی‘‘ ہو سکتی ہے۔
ایک فیصلہ28 جولائی کو آیا جس پر نوازلیگ تلملاہٹوں کا شکار ہوئی اور اب ایک فیصلہ تحریکِ انصاف کو آگ بگولا کر گیا۔ہوا یہ کہ الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف سے منحرف عائشہ گُلالئی کو ’’ڈی سیٹ‘‘ کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس کیس میں کپتان ہار گئے اور گلالئی جیت گئی۔ ہمیں اِس فیصلے پر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ خوشی اِس لیے کہ ایک خاتون نے میدان مار لیا اور حیرت اِس بات پر کہ گلالئی کی سیٹ بچ کیسے گئی؟۔ ہم نے تو یہی سُن رکھا تھا کہ جب کوئی رکنِ اسمبلی اپنی سیاسی جماعت سے منحرف ہوتا ہے تو یا تو وہ خود ہی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جاتا ہے یا پھر سیاسی جماعت اُسے ’’ڈی سیٹ‘‘ کروا دیتی ہے۔ کوئی تیسری راہ تو ہمارے نزدیک تھی ہی نہیں لیکن اب یہ راہ بھی نکل آئی۔ اب اِسی کو نظیر بنا کر کئی ’’پنچھی‘‘ دیدہ دلیری سے منحرف ہو جایا کریں گے اور سیاسی جماعت اُن کا ’’کَکھ‘‘ نہیں بگاڑ سکے گی۔اکابرینِ نوازلیگ اِس فیصلے پر بغلیں بجا تے ہوئے اِسے عادلانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ اُتنا ہی عادلانہ فیصلہ ہے جتنا میاں نوازشریف کی نااہلی کا۔الیکشن کمیشن کے اِس فیصلے کو تحریکِ انصاف نے ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ میاں نوازشریف کو تو اپنی نااہلی پر اپیل کا حق بھی نہیں تھا کیونکہ وہ براہِ راست اعلیٰ ترین عدلیہ کا فیصلہ تھا جس کے خلاف کوئی اپیل نہیں لیکن یہ فیصلہ چونکہ الیکشن کمیشن کا ہے اِس لیے اِسے پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اپنی کامیابی پر مسرور عائشہ گُلالئی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر کپتان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ اُس نے کہا ’’اسلام آباد میں دھرنے کے دنوں میں 47کروڑ روپے کی منشیات نوجوانوں کو سپلائی کی گئی۔ عمران خاں کی حکومت آگئی تو ملک میں منشیات کے اڈے کھُل جائیں گے۔ چار سال نیازی صاحب ملک میں انارکی پھیلاتے رہے۔ لوگ کہتے ہیں نیازی صاحب کو ووٹ دیئے لیکن اُنہوں نے ہماری بہن بیٹیوں کا احترام نہیں کیا ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو اسمگلر خوش اور خواتین پر حملے بڑھ جائیں گے۔ اب اگر عمران خاں نے عوام کو اداروں کے خلاف سڑکوں پر نکالا تو میں بھی نکالوں گی۔ عمران اور طالبان کا مؤقف ایک ہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں پر حملے ہو جاتے ہیں ،پی ٹی آئی کے جلسے میں گانے بھی بجتے ہیں لیکن ایک پٹاخہ تک نہیں پھوٹتا‘‘۔
محترمہ سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب دھرنے میں آنے والی گاڑیوں میں منشیات آ رہی تھیں اور محترمہ اِس سے باخبر بھی تھیں تو اُنہوں نے ایک محبِ وطن پاکستانی کا کردار ادا کرتے ہوئے تب اربابِ اختیار کو اطلاع کیوں نہیں دی؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اُسے خواتین کی بے حرمتی کا پتہ چلانے میں لگ بھگ تین سال کا عرصہ کیوں لگا جبکہ اس کا شمار تحریکِ انصاف کے صفِ اوّل کے رہنماؤں میں ہوتا تھا؟۔ آخر اُسے تین سال بعد ہی منحرف ہونے کا خیال کیوں آیا؟۔مزہ تو تب تھا جب باغی جاوید ہاشمی کی طرح گُلالئی بھی دھرنے ہی کے دنوں میں بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑتیں۔ جب سانپ نکل گیا تو لکیر پیٹنے کا فائدہ؟۔ اب اُن کی باتوں پر کون اعتبار کرے گا۔
عمران خاں تو اِس فیصلے پر بھڑکے سو بھڑکے لیکن تحریکِ انصاف کے ترجمان فوادچودھری نے تو حد ہی کر دی۔ اُس نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضاخاں کے خلاف براہِ راست الزام دھرتے ہوئے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر اپنے استحقاق سے زیادہ مالیت کی گاڑی استعمال کر رہے ہیں جس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ اُس نے یہ بھی کہاکہ سیاست دانوں سے قبل چیف الیکشن کمشنر اپنے اثاثے ظاہر کرے۔ الیکشن کمشنر کی جانبداری پرتو تحریکِ انصاف آگ اُگلتی ہی رہتی ہے لیکن فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر کا نام لے کر اُنہیں موردِ الزام ٹھہرایا جو بہرحال کسی بھی صورت میں لائقِ تحسین نہیں۔ عائشہ گلالئی کے بارے میں بھی اُس نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی۔کسی بھی خاتون کے بارے میں شرم وحیااور غیرت جیسی باتوں کا استعمال انتہائی قبیح فعل ہے ۔اُسے یہ تک خیال بھی نہیں آیا کہ وہ ایک خاتون کے بارے میں ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ آصف نے محترمہ شیریں مزاری کے بارے میں ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جس پر اجلا س کے دوران ہی شدید ہنگامہ ہوا ۔ ہر کسی نے مذمت کی اور بالآخر خواجہ آصف کو معذرت
کرنی پڑی۔ کیا کپتان اپنے ترجمان کو یہ حکم صادر فرمائیں گے کہ وہ اُسی میڈیا کے سامنے اپنے کہے گئے الفاظ پر ندامت کا اظہار کرے؟۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ غیر پارلیمانی الفاظ کا بے دریغ استعمال ہی تحریکِ انصاف کا شیوہ ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ سیاست میں ذاتیات پر اُترنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس کا رواج پڑتا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے یہی رویے رہے اور سیاسی جماعتیں باہم جوتم پیزار رہیں تو پھر کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ یہ الگ بات کہ جب ایسا ہوگیا تو پھر ہم اُس انہونی کا ایک دوسرے پر الزام دھرتے نظر آئیں گے۔ اِس لیے بہتر تو یہی ہے کہ روزافزوں بگڑتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں کوئی درمیانی راہ نکال لیں تاکہ کسی بھی انہونی کو ٹالا جا سکے لیکن نقارخانے میں بھلا طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں