356

چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا عمل سیاست کی حد تک محدود نہ ہو ؍ امیراللہ خان یفتالی ؔ ۔

بونی (ذکرمحمدزخمی)چترال کے معروف سیاسی و سماجی شخصیت سابق ممبر ڈسٹرکٹ کونسل چترال امیر اللہ خا ن یفتالیؔ اپنے ایک اخباری بیان کے ذریعے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کے عمل کو خوش آئیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کے۔ پی۔ کے ۔حکومت اگر جملہ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیک نیتی سے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرتی ہے تو یہ چترال کے لیے بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جاتاہے یہ اعلان صرف سیاسی اعلان نہ ہو اور الیکشن ۲۰۱۸ ؁ کے قریب آتے ہی اس طرح کے اعلانات سے خدشات جنم لیتے ہیں کہ کہیں یہ سیاسی چال نہ ہو ۔اس بارے میں قوم کے ذہن میں ذیل سوالات جنم لے رہے ہیں جوغور طلب ہیں۔
۱۔ یہ کہ کیا چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کے عمل میں مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ متفق ہے یا قانونی اور ائینی طور پر مرکزی حکومت صوبائی حکومت کی اس فیصلہ کا پابند ہے ؟
۲؛۔ کیا نئے ضلع کا اعلان ہوتے ہی نئے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ڈپٹی کمشنر،ایس۔پی اور دیگر لائن ڈپارٹمنٹ کے سربراہاں عوام کے مسائل حل کرتے ہوے نظر ائینگے؟
۳؛۔ کیا ضلع کے اعلان کے ساتھ نئے ضلع کا ضلعی ناظم اپنے فرائضِ منصبی سنبھال کر عوام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہو گا یا کہ موجودہ ضلعی ناظم کے رحم و کرم پر ہی اگلے بلدیاتی الیکشن تک نئے ضلع کے عوام رہینگے؟
۴؛۔کیا اگلے جنرل الیکشن ۲۰۱۸ ؁ کونئے ضلع کا قومی اسمبلی کا ممبر ان کا اپنا ہو گا یادو ضلع قومی اسمبلی کے ایک ہی سیٹ پر پنجہ آزمائی کرینگے؟
ٓاگر درجہ بالا سوالات کے جوابات نفی میں ہو تو اس سے کچھ تواقعات وابستہ کرنا کوئی ہوشمندی ہر گز نہیں اور واعلان ،اعلان تک ہی محدود ہوگی۔لہذا مطالبہ کرتے ہیں کہ کے پی کے حکومت واقعی اگر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ مخلص ہے۔تو نئے ضلع کو مستحکم اور خوشحال ضلع بنانے کے لیے ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا ہو گا جو حقیقی تبدیلی لانے میں مدد گار ثابت ہونگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں