308

تحقیق۔۔۔جانبداری۔۔بگاڑ کا سبب۔۔۔حمزہ گلگتی

دہشت جیسے ،جہاں سے اور جس طریقے سے بھی پھیلائی جائے برائی ہی شمار کیجائیگی۔انسانیت کو دکھ دینے کا جو بھی طریقہ اپنایا جائیگا اسے برا بہر حال کہا ہی جائیگا۔اس میں کسی بھی طرح سے کوتاہی یا جانبداری بگاڑ کا سبب بنے گا۔اب سوال یہ ہے کہ کسے برا اور کسے اچھا کہا جائے ؟۔۔اس کے لئے اتھارٹی او ر معیار کیا ہے؟۔۔یہ لمبی بحث ہے مگراتنا تو سب ہی کو پتہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے بتائے طریقوں کے علاوہ ریاست کے بنائے قوانین سے کھلواڑ بھی برائی ہی تصور کی جائے گی۔۔اگر اپنی ہی پسند و نا پسند کو سامنے رکھا جائے گا تو ہماری ان اداؤں کو منافقت کہتے دیر نہیں لگے گی۔۔ایک عجیب احساس بعض اوقات جکڑ لیتا ہے کہ کسی بھی واقعے کو سیدھے سیدھے جب مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو اس پررائے زنی کرناہر ایک کے لئے آسان ہو جاتا ہے یہی نہیں اگر اس پر کوئی انسان کسی وجہ سے رائے نہ دے تو اسے بھی مذہبی انتہاپسند ہونے کا طعنہ سننے کوملتیں ہیں۔یہ دوہرا معیار عام ہوتا کیوں جا رہا ہے؟۔مگرجب کسی طرف سے مذہب پر بھونڈی وار ہوتی ہے یا آقائے نامدار ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اپنے آپ کو ماڈرن کہتے نہ تھکنے والے یہ دانشورسیکولر مائنڈ سیٹ کے یہ علمبردار اس کو برا کیوں نہیں تصور کرتے ہیں؟۔۔انہیں نظر نہیں آتا کہ اس ردِ عمل سے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔وہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ایک حساس مسئلے کو بلا وجہ چھیڑ کر نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے بلکہ معاشرے سے امن کو بھی دیس نکالا کیا جا رہا ہے۔۔رواداری،برداشت،تحمل یک طرفہ نہیں ،ہر طرف سے اس کا مظاہرہ ہونا چاہئیے۔آقائے نامدارﷺ کی ذاتِ اقدس پر دریدہ دہنی کرنے والوں پر قانون لاگو کرنے پر بھی یہ لوگ سیخ پا ہوجاتے ہیں۔معاشرے میں امن ،برداشت راواداری اور صبرو تحمل کا فروغ تب ہوگا جب قانون پر عمل درآمد کو فروغ دینے کے لئے ہرکوئی اپنا کردار ادا کرے گا،ورنہ یک طرفہ ٹریفک چلانے سے مسائل کم نہیں ہوتے بڑھتے ہیں۔۔مذہبی انتہاپسندوں کے مائنڈ سیٹ کا رونا ہر کوئی روتا ہے مگر سیکولر شدت پسند کسی کونظر ہی نہیں آتے ۔عجیب یک طرفہ تماشہ لگا ہے کہ مردان یونیورسٹی میں ہونے والی بر بریت کے کرداروں کو بھی مذہب پسندوں کے صفوںں میں ڈھونڈنے کا جواز تراشا جا رہا تھا۔دیانت داری سے سوچاجائے تو ایک ہی کلاس ایک ہی جامعہ میں سالوں سے پڑھنے والے طلباء کو ایسا کیا ہو گیا کہ ایک ہی انسان پر بیک وقت غصہ نکالا،وہ بھی اس انداز سے کہ انسانیت شرما جائے۔۔۔کچھ سوالات ایسے ہیں جن کاتسلی بخش جواب ہی ملک میں آئندہ ایسے متوقع حالات کا راستہ روک سکتا ہے۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہاں بربریت کھیلی گئی قانون ہاتھ میں لیا گیا۔الزام لگا کے انجام تک پہنچایا گیا۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب تک جن پر الزام لگا ان کے بارے قانون نے کہاں تک اپنی ذمہ داری پوری کی؟کیا وہ لوگ گرفتار ہوئے سب؟ کیا ان پر قانون کے مطابق تحقیقات ہوئی؟اگر یہ سب ہوئے ہیں تو سزا کس کس کو ہوئی؟۔۔۔یہ لوگ کسی دینی ادارے کے طلباء نہیں تھے بلکہ یہ جدید علوم و نظام کے پلے بڑھے تھے۔عصری علوم سے وابستہ ادارے اور سیکولر کہلانے والی جماعتوں کے ونگ کے طلباء تھے۔مگر افسوس کہ ڈرٹی میڈیا اور کچھ مغرب کے نمک خوار انہیں بھی مذہبی افراد کے کھاتے میں ڈالنے کی بھونڈی کوشش کر رہے تھے۔کیا اس کو جانبداری نہیں کہا جائے گا؟
ایک واقعہ کچھ دن پہلے ملک کے سب سے بڑے عصری ادارے جامعہ قائداعظم میں دیکھنے کو ملا۔کم و بیش ایک ماہ تک یونیورسٹی کو یرغمال بنائے رکھا گیا۔نہ صرف علم و تدریس کا نظام روکا گیا بلکہ دفتری امور سے بھی ذمہ داروں کو کسی حد تک دور رکھا گیا۔ریاست کچھ نہیں کرسکی۔کیوں ۔۔۔؟قانون کو حرکت میں نہیں آنا چاہئے تھا؟کیا وہ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ قوانین لاگو کرنے کا یہ معیار جانبدارانہ کیوں ہے؟
ایک بات کا اندازہ اب تو ہر ایک کو ہوا ہوگا کہ ناموسِ رسالت ﷺ کے قانون سے کسی بھی طرح کی چھیڑ خانی ملک کو انار کی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔دیدہ نا دیدہ کی گئی غلطی کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔اسلام آباد کو جام کر دیا گیا ہے اور حکومت اب سختی کیساتھ مظاہرین سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے جو کسی بھی طرح درست نہیں۔مذاکرات سے مظاہرین کو منانے کا ہر موقع اپنانا چاہئیے۔ملک کسی بھی طرح کے لاقانونیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔لہٰذا سب کیساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔اور قوانین کا اطلاق بھی جانبدارانہ نہیں ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں