192

داد بیداد ۔۔بحالی اور بے حالی کے درمیان۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

بحالی اور بے حالی کے درمیان کشمکش ہے ایک دن خبر آتی ہے کہ متحدہ مجلس کی طرح کا اتحاد بنانے یا متحدہ مجلس کو بحال کرنے پر اتفاق ہو ا ہے دوسرے دن اس خبر کی تردید آجاتی ہے اگرچہ متحدہ مجلس میں چھ مذہبی جماعتیں یکجا تھیں تا ہم فیصلے دویا تین جماعتوں کی مرضی پر ہوتے تھے مولانا شاہ احمد نورانی ،قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الر حمن کا پلڑہ بھاری تھا اب بھی صورت حال تقریباََ وہی ہے اگر لبیک یا رسول اللہ اور ملی مسلم لیگ کو بھی مذہبی جماعتوں میں شمار کیا جائے تو ان جماعتوں کی موجودہ تعداد 12تک پہنچ جاتی ہے مولانا سمیع الحق نے اپنی الگ پارٹی بنائی ہے جمعیتہ العلمائے پاکستان کے تین دھڑے بن چکے ہیں مولانا محمد طیب طاہری کی تنظیم اشاعتہ التوحید نے حالیہ اجتماع میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیتہ العلما ئے اسلام کے خلاف سخت موقف اختیار کر کے سیاسی جماعت بننے کا اشارہ دیدیا ہے اس لئے متحدہ مجلس عمل بحالی سے زیادہ بے حالی کی راہ پر گامزن ہے جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی اعلی قیادت نے ضلعی تنظیموں کو مفاد اور مصلحت دیکھ کر مقامی طور پر کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحا د کرنے کا ختیار دے دیا ہے یہ بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم متفق ہونے پر اتفاق کرنے والے نہیں ہیں انگریزی میں مذہبی جماعتوں کی اندرونی کشمکش کے لئے ’’فریگ مِن ٹیشن ‘‘ (Fragmentation)کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے اُردُو میں اس کو ٹوٹ پھوٹ کی کیفیت کا نام دینا مناسب ہو گا ۔
ایک ہی سب کا نبی دین بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلما ن بھی ایک
میرے سامنے آج ایک ہفتے کے اخبارات ہیں نشان زدہ خبروں میں 10 بڑی خبریں ہیں ان کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ بحالی کے امکانات کم اور بے حالی کے امکانات زیادہ ہیں چار خبریں صوبائی حکومت کے حوالے سے ہیں اور6 خبریں قبائلی علاقوں کے متعلق ہیں صوبائی حکومت کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا یہ ہے کہ یہودیوں کے ایجنٹوں کی حکومت ہے نا اہل ہے،کرپٹ ہے جبکہ سراج الحق کا دعویٰ یہ ہے کہ صوبائی حکومت میں کوئی برائی نہیں ، کوئی عیب نہیں ،دودھ اور شہد کی دُھلی ہوئی ہے اس سے بہتر حکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا قبائلی علاقوں کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کا موقف یہ ہے کہ صوبے کے ساتھ ان علاقوں کا انضمام خطرناک کا م ہے قبائل کے خلاف سازش ہے ، یہودیوں کا ایجنڈ ا ہے جبکہ سراج الحق کی رائے یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کرنا قبائل کے مفاد میں ہے وقت کا تقاضا ہے اسلام کی خدمت ہے اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور وفاقی حکومت کے بارے میں چار خبریں ہیں ان خبروں میں مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) کو مظلوم قرار دیا ہے وفاقی حکومت اور محمد نواز شریف کی حمایت جاری رکھنے کا عند یہ دیا ہے جب کہ سراج الحق نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کرپٹ اور نا اہل حکومت قر ار دے کر اس کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے گو یا ایک طرف آگ ہے دوسری طرف پانی ہے دونوں کو یکجا کر نے کے لئے کسی معجز ے کی ضرورت ہے اس صورت حال کو خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق نے غز ل کے ایک شعر میںیو ں سمود یا ہے
لختِ دل اور اشکِ تر دونوں بہم دونوں جُدا
ہیں رواں دو ہم سفر دونوں بہم دونوں جُدا
یہ 1979 ؁ء کی بات ہے ، جنرل ضیا ء الحق نے علمائے کرام کو دعوت دی تھی کہ نظام مصطفی کے لئے متحد ہ موقف لے آؤ ایک قانون پر اتفاق کر و میں مارشل لاء ریگو لیشن کے ذریعے اس کو نافذ کر ونگا 1988 ؁ء تک یہ پیش کش اپنی جگہ تھی علما ئے کرام شریعت کے قانون پر متفق نہ ہو سکے نظام مصطفی نا فذ نہیں ہوا قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوئی تو جنرل ضیا ء الحق بچ جائیگا علما ئے دین پکڑ ے جائینگے 1977 ؁ء میں پاکستان نیشنل الا ئنس (PNA) کے نام سے مذہبی جماعتیں یکجا ہوگئیں انہوں نے بائیں بازو کی 4 بڑی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بھٹو کے خلاف تحریک چلائی ، یہ اس ملک میں نظر یے کی بنیاد پر آخر ی تحریک اور آخری سیاست تھی جنرل ضیا ء الحق کے دور میں نظریے کی سیاست کو ختم کر دیا گیا اس کی جگہ مفادات کی سیات کو فروغ دیا گیا آج کل مفادات کی سیاست کا دور دورہ ہے نظریات کا کوئی نام نہیں لیتا ایسے میں متحد ہ مجلس عمل بحالی اور بے حالی کی کشمکش سے دوچار ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں