310

’’جنگ آزادی گلگت بلتستان پر ایک علمی کاوش‘‘۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانی

علم و ادب کے حوالے سے بلتستان کسی تعارف کا محتاج نہیں۔میں نے کئی لوگوں سے بلتستان کو ’’چھوٹا لکھنو‘‘ کہتے ہوئے بھی سنا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے اکثر اہل علم و قلم سے میری دوستی ہوتی گئی ہے۔ اس میں بلارنگ و نسل اور بلامسلک و مذہب ہر قلم کار، محقق اور علم دوست انسان سے بہت کم عرصے میں تعلق بنانے میں کامیابی ملی ہے۔گلگت بلتستان کے کئی جید مصنفین اور قلم کاروں نے اس ناچیز کو اپنی کتابیں بطور ہدیہ عطا فرمائیں ہیں۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ میں نے حسب توفیق ان عطاکردہ کتابوں کو پڑھ کر ان پر تعارفی تبصرے بھی لکھے ہیں۔یہ ذہن میں رہے کہ تعارفی تبصروں اور تنقیدی وتجزیاتی جائزوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
محترم حق نواز صاحب کی ایک عظیم علمی کتاب موصول ہوئی۔اس کتاب کے مطالعے سے گلگت بلتستان کی تاریخ کے سینکڑوں پوشیدہ گوشے منظر عام پرآئے۔حق نواز صاحب کا تعلق بلتستان اسکردو سے ہے۔ ایک چلتا پھرتا علمی انسان ہیں۔اور بہت ہی ملنسار اور محبت کرنے والے انسان بھی ہیں۔ان کی ملنساری کی وجہ سے ان کے بہت سارے مشکل کام بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ خوبصورت بلتی لہجے میں اردو بولتے ہیں۔حق نواز صاحب نے کئی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان کی بہترین کاوش ’’جنگ آزادی گلگت بلتستان کشمیر، سازشیں و حقائق ‘‘ہے۔پورے خطے میں یہ کتاب اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔ اس کتاب میں بہت سے پوشیدہ گوشوں پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کتاب پر گلگت بلتستان اور پاکستان کے کئی اصحاب قلم و فکر نے تبصرے کیے ہیں جو اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔ کتاب کے عنوانات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ کتاب بالکل نئی طرز کی ترتیب دی گئی ہے۔چند اہم عنوانات سے آپ کو بھی روشناس کراتے ہیں۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کشمیر سازشیں اور حقائق کے عنوان کے تحت میجر بران، جنگ آزادی کے حوالے سے علمائے کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے ، علمائے کرام کا جہاد کے حق میں فتوی، فاضل دارالعلوم دیوبند(1939) جناب قاضی عبدالرزاق المعروف گلمتی استاد کا کردار، صوبیدار بابر اور قاضی کا تعلق و کردار،، جامع مسجد گلگت سے جہادآزادی کے حق میں فتوی، صوبیدار بابر خان اور قاضی عبدالرزاق کی ملاقاتیں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کی کاوشیں وغیرہ کو بہت ہی مفصل بیان کیا گیا ہے۔سربکف سربلند: اس عنوان کے تحت کرنل حسن کی اور صوبیدار بابر کی ملاقاتیں اور کاوشیں، گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور پھر عنوان نوید انقلاب کے تحت بونجی گریژن اور گلگت اسکاوٹس کے مشترکہ کمان کی روئیداد ہے۔
سیکٹر دارس پر حملہ اور مولانا عبدالمنان کا شرعی فتوی اور اس کے اثرات، میجر بران کی گلگت میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش، گلگت گریٹ گیم یا گریٹر گیم، لڑاو اور حکومت کرو میجر بران کی پالیسی، کرنل حسن خان کے خلاف برطانیہ کا منصوبہ، برطانوی جاسوس میجر بران کی ایمونیشن چوری کا انکشاف، اسکاوٹس کی تنظیم نو کی داستان، کرنل حسن اور قاضی عبدالرزاق کے تعلقات و اختلافات،اور ان دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں،جنگ آزادی بلتستان، ڈوگرہ فوج پر حملے کی تیاریاں، چھورٹ بٹ کا محاذ، پدم پارٹی کی جرات وبہادری کی ناقابل یقین داستان، لارنس عربیہ سے لارنس ٹی ایس لارنس تک کے تعارف ، گھناونے اعمال اور گلگت بلتستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں، قائد بلتستان وزیر غلام مہدی کے خلاف سرخ پوشوں کی سازشیں، راجہ اسکردو محمد علی شاہ کا تاریخی فیصلہ،شیعہ اسٹیٹ قائم کرنے کے منصوبے کے حوالے سے کرنل حسن کے خط کی حقیقت،یعنی کہ یہ خط جعلی تھا یا اصلی، جیسے بہت سارے نئے موضوعات پرابحاث موجود ہیں۔
اس کتاب میں ٹوٹل 27 عنوانات ہیں اور ان عنوانات کے ذیلی عنوانات قائم کرکے مختلف امور بھی زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ان کے مطالعہ سے بہت ساری نئی چیزوں کا انکشاف ہوجاتا ہے۔ بہتر ساری باتیں تو سنسنی خیز انکشافات پر مبنی لگتی ہیں جن کا پہلے کسی کتاب میں تذکرہ نہیں ملتا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک لکھی جانی والی کتابوں میں اہل سنت علما اور رہنماوں کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا بلکہ کہیں ملتا ہی نہیں۔حضرت قاضی عبدالرزاق نوراللہ مرقدہ اور مولانا عبدالمنان غازی کی دینی خدمات اور جنگ آزادی کے حوالے سے ان کی کاوشوں اور کوششوں اور سرفروشان اسلام کے حوالے سے درست معلومات کافی پہلے میں نے مصدقہ ذرائع سے منظر عام پر لایا تھا جو کئی رسائل میں شائع بھی ہوئے اور میری کتاب مشاہیر علمائے گلگت بلتستان کا حصہ بھی ہیں ، حق نواز صاحب نے اس حوالے سے بھی انتہائی مفصل گفتگو کی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔اس سے تشنگی پوری ہوئی ہے۔اس کتاب میں کرنل حسن اور قاضی عبدالرزاق کا تعلق وربط میں کچھ مبالغہ کیا گیا ہے، ان دونوں بزرگوں کا تعلق ضرور تھا لیکن اتنا گہر ا بھی نہیں تھا۔تاہم حق نواز صاحب کی یہ کاوش بہت ہی اچھی ہے کہ انہوں نے بنیادی ذرائع یعنی سرکاری ریکارڈ اور جنگ آزادی کے دور کے بزرگوں اور نوجوانوں سے مواد حاصل کیا ہے۔یہ دونوں بنیادی ذرائع ہوتے ہیں۔ کتاب میں ان دونوں ذرائع سے کام لیا گیا ہے۔بہت سارے مقامات پر اہم انکشافات تو ہیں لیکن کوئی حوالہ نہیں اور نہ ہی حوالے کی طرف اشارہ ہے۔مجھے تو یہ باتیں الہامی لگتی ہیں۔بہر صورت یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان وکشمیر، انکشافات و حقائق کے منظر عام پر آنے سے بہت ساری تحقیقات کا رخ بدل جائے گا۔جنگ آزادی کے حوالے سے اہل سنت علما و مشائخ اور لیڈروں کا کردار اب تک دانستہ یا غیر دانستہ پوشیدہ رکھا گیا تھا جس کو حق نواز صاحب نے طشت ازبام کردیا۔اور تو اور قاضی عبدالرزاق جیسے مرد حریت کا نام و کردار بھی تاریخ کی کتابوں میں اوجھل تھا۔ یہ وہی مرد تھا جو گلگت میں استعمار کا سب سے بڑا دشمن تھا۔انہوں نے ہی استعمار کے نمائندوں اور ایجنٹوں کو قتل کرنے کا فتوی جاری کیا تھا اور جامع مسجد گلگت سے آزادی گلگت بلتستان کے لیے جہاد کا اعلان کیا تھا۔یہی مجاہد برٹش استعمار کی راہ میں کانٹا بنا ہوا تھا، اور ڈوگرہ فوج و سرکاری عمال بھی اسے خائف تھے۔
حق نواز صاحب نے کتاب کے نئے ایڈیشن میں اس دور کے ریکارڈ سے کنگال کر سرکاری عمال کے خط و کتابت کے کچھ عکس دیے ہیں۔ان میں میجربروان وغیرہ کی تصریحات ملتی ہیں قاضی عبدالرزاق کے حوالے سے۔ان کو یہ ریکارڈ ڈپٹی ہائی کمشنریونائٹڈ کنگڈم کی پشاور دفتر سے ملا۔۔جس میں میجربراون، کیپٹن میتھی سن وغیرہ کی دستاویزات ہیں۔ایک لیٹر میں لکھا گیا کہ گلگت میں ایک متشدد اور کٹر مولوی ہے جس استعمار کے نمائندہ کو قتل کرنے کے لیے عام الناس کو اکساتا ہے یہی وہ مولوی ہے جس سے دنیا قاضی عبدالرزاق ، خطیب جامع مسجد گلگت، اور گلگت کی مقامی آبادی گلمتی استاد نام سے جانتی ہے۔ایک طویل عرصہ یہی گلمتی استاد گلگت میں تمام مکاتب فکر کا مرجع رہا۔دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی گلمتی استاد(قاضی عبدالرزاق ؒ ) سے اپنے قضیوں میں تصفیہ کراتے اور انہیں حکم تسلیم کرتے۔اہل تشیع کے روحانی پیشوا شیخ کثیر نجفی اور گلمتی استاد کا بہت ہی یارانہ تھا۔اس حوالے سے محترم شیرباز برچہ کے پاس بڑی تفصیلات ہیں۔اسی طرح میر غضفر(موجودہ گورنر) کے والد مرحوم کے ساتھ بھی گلمتی استاد کے بڑے قریبی تعلقات تھے۔کہ اس زمانے میں مختلف مسالک کے علما و مشائخ کس طرح ربط و تعلق رکھتے تھے۔انگریز استعمار کی دشمنی گلمتی استاد، یعنی قاضی عبدالرزاق صاحب دارالعلوم دیوبند سے ہی سمیٹ کر لائے تھے۔حضرت مدنیؒ نے اپنے تلامذہ کے دل و دماغ کو استعمار اور ان کے ایجنٹوں کی دشمنی سے بھر دیا تھا۔اور اگر جنگ آزادی کے دوران صوبیدارمیجر شاہ رئیس خان اورکیپٹن بابر مداخلت کرکے بچ بچاو نہ کراتے تو قاضی عبدالرزاق نے گلگت میں موجود استعمار کا نمائندہ میجر براون کو انجام تک پہنچایا ہوتا۔ بہرصورت مجموعی طور پر یہ کتاب انتہائی دلچسپی کے حامل ہے۔اس کے 332 صفحات ہیں۔ معیاری کاغذاور جلد ہے۔ کتاب کی ڈیزائنگ بھی کمال کی ہے، سائز بھی درمیانہ ہے۔ کتاب میں بہت ساری تصاویر ہیں جن میں کچھ تحریرات کے عکسی نمونے، قدیم جگہوں اورعمارتوں کی تصاویر خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ کتاب پہلی اگست 2016 میں زبیر پبلیکشنز اسکردو سے پبلش ہوئی ہے۔گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔اور دوسرا رنگین ایڈیشن بھی شائع ہوکر مارکیٹ میں آیا ہے۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ احباب سے گزارش ہے کہ حق نواز صاحب کی کتابجنگ آزادی گلگت بلتستان سازشیں و حقائق کا ایک دفعہ ضرور مطالعہ کریں، مجھے امید ہے کہ یہ کتاب آپ کا کچھ نہیں لیں گی بلکہ آپ کو بہت کچھ دیں گی اور آپ کواز سر نو اپنی فکر و نظرکو ترتیب دینے پر مجبور کریں گی اور شاید بہت سارے مبہم سوالات کے جوابات بھی ملیں گی اور بہت سارے سوالات مزید پیدا ہونگے جن پر تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اب تاریخ پر تحقیق ایک نئے انداز میں آگے بڑھے گی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں