391

’’فون کا عذاب‘‘۔۔۔محمد جاوید حیات

fff
بڑی مشکل سے ایک بڑے دفتر کے اندر داخل ہونے کی میری باری آتی ہے۔اندر داخل ہوتا ہوں تو صاحب موبائل سیٹ کان سے لگایا ہوا ہوتا ہے۔میں ہاتھ کے اشارے سے سلام کرکے کھڑا رہتا ہوں۔نہ جانے کتنا عرصہ گذرتا ہے۔میری پیشانی پر پسینے آتے ہیں۔ٹانگیں تھکن سے ٹوٹنے لگتی ہیں۔آنکھیں بے نور ہوتی جاتی ہیں۔گلا تھوک اگلتے اگلتے خشک ہوجاتا ہے۔صاحب کی گفتگو سے لگتا ہے کہ مخاطب کوئی بے تکلف یارہے۔باتوں میں جوانی کی باتیں ،بچپن ،سکول،گاؤں،کھیلوں وغیرہ کی باتیں ہیں۔ہنسی مزاح کی باتیں ہیں۔دونوں طرف سے فضول سی گھپ شپ ہے۔۔۔۔خدا خدا کرکے خدا حافظ کہتا ہے۔موبائل بند کرکے صاحب مجھے بیٹھنے کو کہتا ہے۔میں سارا مدعا آنکھوں میں اتار کر گلہ کھنگالنے لگتا ہوں۔تو موبائل پہ مسیچ آتا ہے۔صاحب مسیج کا جواب دے رہے ہیں چہرے پہ مسکراہٹ ہے۔میں انتظار میں ہوں۔۔۔مسیچ سنڈ کرتا ہے۔میں پھر حواص درست کرتا ہوں۔پھر مسیج آتا ہے اس بار صاحب کا موڈ اف ہے۔مسیج رسپانس کرتا ہے۔پھر حواص درست کرتا ہوں۔مگر پھر فون ہے۔صاحب موونگ چیر کو حرکت دیتا ہے۔اب چہرہ کسی دوسری طرف ہے۔اتنے میں پی اے آتا ہے اور میرے کان میں کہتا ہے۔۔۔لو اس آفس میں تیرے 30منٹ ہوگئے۔صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ہر ایک کو 30منٹ دے سکے۔میں خاموشی سے اُٹھتا ہوں دل کہتا ہے کہ صاحب نے مجھے 30منٹ دیا کب ہے؟بس نکلتا ہوں۔باہر آتا ہوں تو ملاقاتوں میں سے99فیصدموبائل کانوں سے لگائے سر ادھر ادھر کرکے کچھ کہہ رہے ہیں۔ایک ملاقاتی حسرت کی نظروں سے مجھے دیکھتا ہے کہ میں ’’بختاوار‘‘یعنی خوش قسمت ہوں۔ملاقات کرکے آیا ہوں۔لیکن میراسر خفت اور حسرت سے جھکا ہواہے۔۔۔میں اپنے کاغذات فوٹو سٹیٹ کرنے کیلئے فوٹو سٹیٹ کی دکان میں پہنچتا ہوں۔کاغذات نکال کے ہاتھ میں لیا ہے۔ہاتھ فوٹو سٹیٹ والے کے آگے دھرا ہوا ہے۔وہ سیل فون پہ کسی سے بات کررہا ہے۔میں تھک جاتا ہوں اتنے میں میرا سردرد مجھے بے تاب کردیتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ ابھی ڈاکٹر سے ملوں واپس آکر کاغذات کی نقل نکالوں ۔۔۔۔ہسپتال کے ریزرویشن کاونٹر جاتا ہوں ۔ڈیوٹی والا فون کانوں سے لگایا ہوا ہے۔میں ا س کو متوجہ کرنے کے لئے کھانستا ہوں غون غون کرتا ہوں۔لیکن وہ اپنی دنیا میں مست ہے۔اتنے میں میری بے تابی محسوس کرکے چٹ تھما دیتا ہے۔۔۔۔میں ڈاکٹر کے آفس کے سامنے قطار میں جا شامل ہوتا ہوں،چٹ میرے ہاتھ میں ہے چپڑاسی سل فون کانوں سے لگائے کھڑا ہے ۔کھڑے کھڑے چکرانے لگتا ہوں۔اتنے میں دھکم پیل ہوتا ہے۔ایک مریض دفتر سے نکل رہا ہے دروازہ کھلتے ہی دو اوروں کے ساتھ میں بھی گھس جاتا ہوں۔دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر فون پہ کسی سے بات کررہا ہے میں کھڑے کھڑے گرنے لگتا ہوں۔ابکیاں آتی ہیں میں باہر آتا ہوں۔۔۔۔۔مجھے ایک مولانے کا پتہ ہے کہ وہ سردرد کے لئے تعویذبناتا ہے۔وہاں پہنچتا ہوں۔مسجد میں داخل ہوتا ہوں۔دیکھتا ہوں کہ سل فون کانوں سے لگایا ہوا ہے۔میں بیٹھ کے انتظار کرتا ہوں۔سردرد بیتاب کرتا ہے باہر نکلتا ہوں۔۔۔۔ٹیکسی کے پاس جاتا ہوں۔ڈرائیور شیشے اتارے اپنے سیٹ سے ٹیک لگائے فون پہ مصروف ہے۔شیشے کھٹکھٹاتا ہوں ڈرائیور نہیں جاگتا۔دوسری پھر تیسری آخر کو آخری ٹیکسی کے پاس پہنچتا ہوں۔ڈرائیور راضی ہوتا ہے۔میں ٹیکسی میں بیٹھتاہوں۔ٹیکسی سٹارٹ ہوتے ہی اس کا سل فون بجتا ہے۔سیٹ کانوں سے لگائے روانہ ہوتا ہے۔ابھی دومنٹ چلے تھے کہ سامنے ایک نوجوان موٹر سائیکل چلائے آرہا ہے۔ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلارہا ہے دوسرے سے سیٹ کانوں سے لگایا ہے۔ہم اپس میں ٹکراتے ہیں۔پولیس آتی ہے ہم تھانے پہنچتے ہیں۔۔۔۔ایس ایچ او صاحب آفس میں ہیں۔وہ فون میں بات کررہا ہے۔۔۔۔میں تھانے سے باہر آتا ہوں کہ پیدل ہی کسی طریقے گھر پہنچوں ۔جاتے جاتے ایک کالج کے جوان سے ٹکراتا ہوں وہ پیدل آتے ہوئے مسیج کررہا تھا۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ زمین کی طرف نہیں دیکھ رہا۔وہ بڑے حقارت سے’’ماما‘‘کہتا ہے۔۔۔۔آگے بڑھتا ہوں ایک بیکاری راستے میں بیٹھا ایک ہاتھ آگے کیا ہوا ہے۔مگر سرجھکا ہوا ہے۔قریب جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ ایک ہاتھ سے مسیج کررہا ہے۔۔۔۔۔جاتے جاتے سوچتا ہوں کہ کچھ میوے گھر لے کے جاؤں۔میوہ فروش کے پاس پہنچتا ہوں میں آم مانگتا ہوں وہ کیلا دے رہا ہے۔میں ہاتھ کے اشارے سے آم،کیلااور تربوزکا کہتا ہوں یہ بھی کہتا ہوں کہ مجھے آم چاہیئے وہ پرواہ نہیں کرتامیں نکلتا ہوں۔۔۔۔گھر پہنچتاہوں گرتے گرتے باورچی خانے میں داخل ہوتا ہوں ہنڈیا چھڑی ہوئی ہے مگر بیگم صاحبہ موبائل سیٹ کان سے لگائی ہوئی ہے میرے آنے کا کوئی نوٹس نہیں ہوتا ہے۔نکلتا ہوں دوسرے کمرے میں داخل ہوتا ہوں دیکھتا ہوں کہ بڑا بیٹا فیس بک پہ ہے۔منجھلا مسیج کررہا ہے۔چھوٹی بچی گیم کھیل رہی ہے۔ٹی وی لگا ہے مغرب کی آذان ہورہی ہے۔کسی کوکوئی پرواہ نہیں ۔۔۔۔میں بے بسی کے عالم میں دیوار سے ٹیک لگاکے ہاتھ اُٹھتا ہوں۔کہتا ہوں ’’اے اللہ اس قوم کو ’’فون‘‘کے اس عذاب سے بچا۔اس کو دیوانگی سے بچا۔اے اللہ سل فون کا وجود ہی ختم کردے۔یا کم از کم اس کے مناسب استعمال کی اس قوم کو توفیق دے۔۔اے اللہ کوئی آئے ایسا قانون بنادے کہ افیسر دفتر میں فون نہ سنے،پولیس تھانے میں فون نہ سنے،عورت باورچی خانے میں فون نہ سنے۔ڈاکٹر مریض کے پاس فون نہ سنے،مولانا مسجد میں فون استعمال نہ کرے۔استاد فون آف کرے۔بچہ فون پہ گیم نہ کھیلے۔بیٹا باپ کے سامنے مسیج نہ کرے۔۔۔اے اللہ اپنی مخلوق کو پاگل پن سے بچا۔اس پر رحم فرما۔اس کی شرافت اور سکون اس کو واپس دلادے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں