281

یوں توسارے نبی محترم ہیں مگر۔۔۔سرورِانبیاءﷺ تیری کیا بات ہے!۔۔۔۔مولانا محمد جہان یعقوب

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام نبیوں اور رسولوں کی تعظیم و توقیر ضروری،ان پر ایمان لائے بغیر اللہ تعالی پر ایمان کادعویٰ معتبر نہیں ہوسکتا
مولانا محمد جہان یعقوب
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے جن برگزیدہ بندوں کو اپنا پیغامِ حق مخلوق تک پہنچانے کے لیے منتخب فرمایا،وہ سارے انسان اور بشر تھے، انھیں نبی اور رسول کہتے ہیں اور ان کے منصب کو’’ نبوت‘‘ اور ’’رسالت ‘‘کہا جاتا ہے۔تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں،نبی سے بسا اوقات اجتہادی خطا ہوسکتی ہے اور یہ نبوت و عصمت کے منافی نہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نبی کوکبھی بھی خطائے اجتہادی پر برقرار نہیں رکھتے۔نبوت اور رسالت کسبی چیز نہیں ،یعنی اپنی محنت سے کوئی اس مرتبے کو حاصل نہیں کر سکتا،اسی طرح اپنے اندازے سے کسی کو نبی قرارنہیں دیا جاسکتا۔دعویٰ نبوت سے پہلے بھی انبیا و رسولوں کی زندگی مثالی ہوتی ہے، وہ اخلاق کے بہت اعلی معیار پر فائز ہوتے ہیں۔تمام انبیاء و رسل علیھم السلام کا دین یعنی اصولی عقائد ایک ہی ہیں اور شریعتیں یعنی فروعی احکام جدا جدا ہیں۔(النساء : ۱۶۶) تمام انبیائے کرام علیھم السلام پر ایمان کے بغیر اللہ تعالی پر ایمان معتبر و مقبول نہیں،تمام انبیائے کرام پربلاتفریق ایمان رکھناواجب اور کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔(آل عمران)۔انبیاء علیھم السلام حق کو کھول کر اس حد تک واضح کردیتے ہیں کہ قوموں کو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔انبیا کی دعوت ان کی قوم کے ہر فرد کیلئے ہوتی ہے۔انبیاء اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے کے پابند ہوتے ہیں، زبردستی حق کو قبول کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔(المائدہ: ۹۹)
ان حضرات کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے معجزات عطا فرمائے۔(الحدید : ۲۵)یہ حضرات معجزہ پیش کرنے میں اللہ تعالی کے محتاج ہوتے ہیں۔انبیا ئے کرام علیہم السلام کے جو معجزات دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہیں، ان پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور جومعجزات قطعی دلائل سے ثابت نہیں، ان کا انکار کربنا بھی ضلالت و گمراہی ہے۔انبیاء و رسل اپنے دعوائے نبوت کے ثبوت میں جونشانی پیش کرتے تھے قوم اس میں نبی کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتی تھی، کیوں کہ معجزہ اللہ تعالی کی طرف سے نبی کی نبوت کے برحق ہونے کی ایک آسمانی دلیل ہوتا ہے۔ تمام انبیائےء کرام کی طرح سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزات دیے گئے،جن میں بڑے بڑے معجزات،قرآن مجید،واقع�ۂمعراج، شقِ صدر اور شقِ قمر وغیرہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی نشانیوں اور دلائل میں آپ کی پیشین گوئیاں بھی ہیں، جو ویسے ہی ظاہر ہوئیں، جیسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں۔ (سورۂ اسراء : ۱،سورۂ الانشراح : ۱،سورۃ القمر : ۳)
انبیاء اور رسل علیھم السلام کی تعداد اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا،مشہور یہ ہے کہ کل نبیوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس یا چوالیس ہزار ہے،جن میں300سے کچھ اوپر رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ان برگذیدہ بندوں نے حق کی دعوت دی، جس نے ان کی بات کو مان لیا ، وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ ناکام و نامراد ۔ہر بات جس کو نبی و رسول پیش کریں ان کی تصدیق لازم اور انبیا کی اطاعت فرض ہے ۔جس قوم کی جانب جس رسول کو بھیجا گیا،تمام انبیاء ور سولوں پر ایمان کے ساتھ ساتھ، اس قوم پر خاص اُس رسول کی شریعت کی پابندی لازم ہے ۔(آل عمران: ۸۴)انبیاء ورسل علیھم السلام میں کچھ تو وہ ہیں جن کا اللہ تعالی نے ہم پر بیان کر دیا اور کچھ وہ ہیں جن کا ہم پر بیان نہیں کیا ۔(سورۃالنسا ء آیت نمبر:۱۶۴)
فائدہ:اللہ تعالی نے قرآن مجید میں25 انبیائے کرام کا ذکر کیا ہے،جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں :(1) سیدناحضرت آدم علیہ السلام۔(2) سیدناحضرت ادریس علیہ السلام۔(3) سیدناحضرت نوح علیہ السلام۔(4) سیدناحضرت ھود علیہ السلام۔ (5) سیدناحضرت صالح علیہ السلام۔(6) سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام۔(7)سیدناحضرت لوط علیہ السلام۔(8) سیدناحضرت اسماعیل علیہ السلام۔(9)سیدناحضرت اسحاق علیہ السلام۔(10) سیدناحضرت یعقوب علیہ السلام۔(11) سیدناحضرت یوسف علیہ السلام۔(12)سیدناحضرت شعیب علیہ السلام۔(13)سیدناحضرت ایوب علیہ السلام۔(14)سیدنا حضرت ذوالکفل علیہ السلام۔(15)سیدناحضرت موسیٰ علیہ السلام۔(16)سیدناحضرت ھارون علیہ السلام۔(17)سیدناحضرت داؤد علیہ السلام۔(18)سیدناحضرت سلیمان علیہ السلام۔(19)سیدناحضرت الیاس علیہ السلام۔(20)سیدناحضرت الیسع علیہ السلام۔(21)سیدناحضرت یونس علیہ السلام۔(22)سیدناحضرت زکریاعلیہ السلام۔(23)سیدناحضرت یحییٰ علیہ السلام۔(24)سیدناحضرت عیسیٰ علیہ السلام۔اور(25) نبی الأنبیاء محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(الأحزاب : ۴۰)
انبیاء اور رسل تمام بنی نوع انسان میں سب سے کامل، سب میں افضل، سب سے سچے اور نمونۂ عمل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی اقتدا اور پیروی کرنے کا حکم دیاہے ،البتہ اللہ تعالی نے بعض انبیا ورسل کو بعض پر فضیلت دی ہے۔(بنی اسرائیل : ۵۵)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہرنبی کی تعظیم و توقیر ضروری ہے،اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ کسی نبی کا کوئی دعویٰ جھوٹا ثابت نہیں ہو سکتا ۔(سورۂ فاطر: ۴)سب نبی اپنے مقصدِ نبوت میں کامیاب ہوئے ہیں۔ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی نبی کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی سے بھی انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اللہ کے نبی یا رسول نہ آئے ہوں۔ اور قیامت کے دن اسی بنیاد پر بندوں سے سوال ہوگا۔ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، حتیٰ کہ اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں کی طرف بھیجا۔(اعراف:۱۵۸)پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب قریشی ہاشمی مطّلبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے افضل،سب سے پیارے،سب سے کامل واکمل،سب سے اشرف واعلیٰ بندے اور رسول ہیں،آپ امام الانبیاء بھی ہیں،تمام انبیاء ورسل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی مدد ونصرف کرنے کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے عہد لیا گیا۔(الأحزاب: ۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنا فرض ہے، یہاں تک کہ یہ محبت اپنے ماں باپ،اولاد اور تمام مخلوقات سے بھی زیادہ ہو۔(الاحزاب : ۶)اس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب ایک طرف نبی کی محبت ہو اور دوسری طرف اپنی جان یا اپنے والدین اور اولاد کی محبت کا مسئلہ ہو،یا ایک طرف نبی کا حکم ہو اور اس کے مقابلے میں والدین کا حکم ہو،تو ایک امّتی کے حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی جان،والدین اور اولاد کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اہمیت دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا،جو ایسا کوئی دعویٰ کرے وہ اور اس کے پیروکار دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔تمام مدعیانِ نبوت جھوٹے ہیں، ان کی تکذیب لازم ہے ۔اس بات پر امت کا دورِصحابہؓ سے اب تک اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص کسی مدعئ نبوت سے دلیل یا معجزے کا مطالبہ کرے تو وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے امّتی کے طور پر نازل ہوں گے۔ قیامت تک آپ کی شریعت پر عمل کرناواجب ہے۔ لہٰذامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے زمانے کے تمام انسانوں اور جنوں اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں اور جنوں پر فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی شریعت کی پابندی کریں۔کسی نبی کے دنیا سے پردہ فرماجانے سے ان کی نبوت و رسالت ختم نہیں ہوتی،یعنی یہ کہنا درست نہیں کہ مثلاً:حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی تھے،کیوں کہ وہ اب بھی نبی ہیں،البتہ عمل صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام وطریقوں پر کیا جائے گا۔
نبی دنیا میں کسی سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھتے، انھیں براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے علوم عطا کیے جاتے ہیں۔(الاعراف: ۱۵۷)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطافرمائے گئے، جو کسی اور کو نہیں دیے گئے۔انبیائے کرام علیھم السلام اللہ کے بتلانے سے غیب کی بہت ساری باتوں کا علم رکھتے ہیں، جو غیر انبیاء کو معلوم نہیں ہوتیں، لیکن اس کے باوجود وہ غیب کی ہر بات کو نہیں جانتے۔(الجن : ۲۸)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیا کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مستحب ہے، بلکہ عمدہ ترین نیکی اور افضل ترین عبادت ہے، قبر مبارک کے پاس حاضر ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا، شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ آپ میری بخشش کی سفارش فرمائیں، جائز بلکہ مستحب ہے۔ قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر جو شخص صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہے آپ خود سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں،جب کہ دور سے پڑھا جانے والا درود و سلام بذریعۂ ملائکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں زمین کا وہ حصہ جو آپ کے جسم مبارک کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ تمام روئے زمین حتیٰ کہ بیت اللہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ میدانِ محشر میں حساب کتاب کے آغاز ،اسی طرح قیامت کے دن گناہ گاراہلِ ایمان کے حق میں جہنم سے خلاصی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بر حق ہے۔
مولانامحمدجہان یعقوب
سینئر ریسرچ اسکالر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں