387

(مجھے کون سنے گا)۔۔سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر

fff
حکومت ، آرمی،NGOS، مخیر حضرات اور فلاحی اور رفاعی اداروں سے درد مندانہ اپیل ۔
ضلع چترال کے 16دیہات کے سیلاب سے تباہ شدہ باشندوں کی جس نے جس قدر بھی مدد کی ہے ان تمام اداروں کا تہہ د ل سے شکریہ ۔ا ب بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت نے 50,50کروڑ کی جو امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا اس کا بہت حصہ لاجسٹک سڑکوں کی بحالی اور ھیلی کاپٹر سروس کے ایمرجنسی رسپانس کے طور پر نہایت احسن طریقے سے خرچ ہو چکا ہو گا ۔ اور خوراک ،پانی اور دیگر مسلسل امداد کا کام ابھی بھی جاری ہے۔ جس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
چترال کے شدید سردی کے موسم کے آنے سے پہلے ان بے گھر ہونے والے خاندان کی قابل برداشت رہائش کا جلد از جلد بندوبست کرنا نہایت لازمی اَمر ہے ۔ خیموں میں چترال کی سردی کو بوڑھے ، بچے ، بچیاں کس طرح برداشت کر سکیں گے۔ اس کا اندازہ چترال انتظامیہ آرمی اور اسکاؤٹس والے خود مشورہ کر کے مناسب فیصلہ اور بندوبست کر سکیں گے ۔
۱) پہلا مشورہ ہر متاثرہ دیہات کے احاطے میں سرکاری عمارتوں کو عارضی طور پر ان بے گھر ہونے والے خاندان کی رہائش کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں سکول ، ھسپتال ، گیسٹ ہاؤسز وغیرہ شامل ہیں۔
۲) انہی تباہ شدہ دیہات اور زمینات کے اوپر عارضی شلٹرز کی تنصیب کر کے بے گھر ہونے والوں کو پردے کی فراہمی کے ساتھ خاندانوں کے افراد کی تعداد کے مطابق ایک، دو، تین شلٹرز فراہم کرکے ہر خاندان کو سردیاں گزارنے کااھل بنایا جا سکتا ہے ۔
۳) مرکزی حکومت اور صوبائی انصاف کی حکومت اپنے اپنے اعلانات کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور چترال اسکاؤٹس کا مشترکہ کمیٹی بناکر متاثرہ خاندانوں کو نقد رقوم ان کے ذمہ دار افراد کے ہاتھ تک جلد از جلد پہنچا کر ان کی اشک شوئی کرسکتے ہیں ۔ ان مصیبت زدہ خاندانوں کے پسماندگان کو دفتروں کا چکر لگواکر ان کے زخموں پر نمک پاہشی نہ کی جائے ۔ تاکہ وہ خود بھی اپنے بحالی کا کام کرسکیں ۔

نہایت ضروری قابل توجہ قابل غور ، اور قابل عمل لازمی اَمر ۔
تمام سیلاب سے تباہ شدہ گھروں کی تباہی ۔ حادثاتی موت کا شکار ہونے والے خاندان اور تباہ شدہ زرعی زمینات کے مالکان کے بچے بچیاں چترال اور چترال سے باہر مختلف سرکاری اسکولوں اور غیر سرکاری اداروں کا بچوں ، یونیورسٹیوں ، دارلعلوموں میں ماہوار ٹیوشن فیس ، اور ھاسٹلز کے اخراجات چترال سے آنے جانے کے با عزت ذرائع اور ماں باپ کی کمائی پر بے غم تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ اور ہر خاندان اپنے بچوں ، بچیوں کی کفالت کا اپنی حد تک بندوبست اور مالی اخراجات اٹھا رہے تھے موجودہ سیلاب نے ان علم دوست والدین کے مالی استداد کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ اور وہ قابل استعداد خاندان اب ایک ایک جوڑے کپڑے ، سر چھپانے کے مکان اور دو وقت کی باعزت روٹی کے محتاج ہو گئے ہیں ۔اپنے بچے بچیوں کے سکولوں کے اخراجات فیسسز اور کالج یونیورسٹیوں تک پہنچانے اور ان کے داخلے ، ٹیوشن ھاسٹل کے اخراجات دینے سے معذور ہو چکے ہیں ۔
لہذا (Transparent)طریقے سے ان سیلاب متاثرین کے طالب علم بچوں اور بچیوں کے ممکن کوائف اور جن اداروں میں وہ زیرِ تعلیم ہیں ان کے ایڈریس اور اکاؤنٹ نمبرز اور ماہوار اخراجات کی معلومات حاصل کرکے بلا واسطہ ان متعلقہ اداروں کو مزید وقت ضائع کئے بغیر ادائیگی کا بندوبست کیا جائے ۔ تا کہ ان قدرتی آفات سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں بچیوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔
ادائیگی بچوں اور بچیوں اور ان کے والدین کو کرنے کے بجائے ان اداروں کو کیا جائے جہاں وہ بچے بچیاں پڑھتے ہیں یا داخلہ لینا چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں