495

اسماعیلی۔ کل اور آج۔۔۔۔۔ اقرارالدین خسرو

عالمی اصطلاح میں مسلمانوں کی سب سے بڑی شاخ کو سنی کہتے ہیں، گوکہ ہمارے ہاں سنیوں کی بھی کافی ساری شاخیں ہیں مگر عالمی اصطلاح میں غیر اہل تشیع سب سنی ہیں، اسی طرح اہل تشیع مسلمانوں کے دوسرے بڑے گروہ کا نام ہے، اور اہل تشیع کی بھی کافی شاخیں ہیں مگر عالمی اصطلاح میں سب کو ملاکے ایک کو سنی مسلمان دوسرے کو اہل تشیع مسلمان کہا جاتا ہے،اسماعیلی جنھیں شیعہ امامیہ بھی کہتے ہیں ہمارے چترال کی دوسری بڑی اکثریت اور چترال کی کل آبادی کا 29 فیصد ہیں۔ انھیں شیعہ امامیہ اس لئے کہتے ہیں کہ ابتدا میں چھ امام ان کے شیعوں کے ساتھ مشترک تھے۔علی بن ابی طالب، حسن بن علی ، حسین بن علی ، زین العابدین ، محمد باقر اور امام جعفر صادق۔
اسماعیلی فرقے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق 148 ہجری میں فوت ہوئے اور ان کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہوا تو شیعہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل جو اپنے والد کے انتقال سے چند سال قبل وفات پاچکے تھے امام منصوص یا مامور من اللہ ہیں اور دوسرے گروہ نے ان کی بجائے ان کے دوسرے بیٹے سیدنا موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیا۔
پہلا گروہ حضرت اسماعیل کے نام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتا ہے اور وہ دھڑا جس نے امام موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیا اثنا عشری کہلایا اور جمہور شیعہ کا تعلق اسی فرقے سے ہے۔ یہ فرقہ امامت کی ابتدا حضرت علی سے کرتاہے اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہے اور بارہویں امام کو مستور خیال کرتا ہے۔
اسماعیلیوں کے نزدیک دیگر شیعہ فرقوں کی طرح امام کا تعین نص قطعی سے عمل میں آتا ہے اس لئے امام کو اس کے منصب سے ہٹانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ موروثی حق ہونے کے باعث امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے۔
سنہ1094 میں اسماعیلی کمیونٹی میں اٹھارویں امام مستنصر باللہ کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کے مسئلے پران کے بڑے بیٹے نزار اور سب سے چھوٹے بیٹے اکیس سالہ مستعلی کے درمیان جانشینی کے سوال پر مناقشہ ہوگیا اور اسماعیلی ایک دفعہ پھر دو دھڑوں نزاری اور مستعالین میں منقسم ہوگئے۔ مشرق میں یعنی ایران کے اسماعیلی نزار اور اس کی اولاد کو امامت اور خلافت کا مستحق خیال کرنے لگے لیکن مغرب یعنی مصر اور یمن میں مستعلی اور اس کی اولاد کو امامت کا مستحق سمجھا گیا۔ نزار بن معاذ کے بعد نزاری اسماعیلی نو اماموں تک مشترک رہے پھر امام شمس الدین محمد کے بعد انھیں ایک بار پھر تقسیم ہونا پڑا، یہاں نزاریہ کے دو فرقے ہو گئے ایک گروہ مؤمنیہ کہلایا جو شمس الدین کے بڑے بیٹے مؤمن کو امام مانتے ہیں۔ دوسرا قاسمیہ جو شمس الدین کے دوسرے بیٹے قاسم شاہ کو امام مانتے ہیں۔ اور پینتالیسویں امام شاہ خیراللہ دوم تک اسماعیلی نزاری قاسمی کہلاتے تھے اور آج کل اپنے آخری چار اماموں کی مناسبت سے آغاخانی بھی کہا جاتا ہے۔ آغا خانی اصطلاح چھیالیسویں امام حسن علی شاہ سے شروع ہوتا ہے، جسے ایران کے قاجاری حکمران نے یہ لقب دیا تھا، مگر بعد میں آغا خان اول حسن علی شاہ نے انگریزوں کی تحریک کا ساتھ دیتے ہوے قاجاری سلطنت سے بغاوت کی۔ جسکی ناکامی کے بعد اسے ایران سے نکلنا پڑا، حسن علی شاہ کے بعد اسکے جانشین آغا علی شاہ، سلطان محمد شاہ اور موجودہ امام شاہ کریم الحسینی آغا خان دوم، سوم اور چہارم کے نام کے جانے جاتے ہیں۔ 13 دسمبر 1936 کو جینیوا میں پیدا ہونے والے اور 1957 سے اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا شاہ کریم الحسینی پرنس کریم آغا خان چہارم جو اسماعیلیوں کے موجودہ امام ہیں ان دنوں پاکستان اور چترال کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مذہبی اختلافات صدیوں سے چلے آرہے ہیں، مگر اسماعیلیوں کے ساتھ مذہبی اختلاف سنیوں کے علاؤہ اہل تشیع اور اسماعیلیوں کے ہی دوسرے گروہ مستعلیہ یا بوہرہ ( جنکی اکثریت ہندوستان میں ہے اور انکی عبادت گاہ کا نام بھی جماعت خانہ ہے مگر وہ پرنس کریم کے پیروکار نہیں) کا بھی اختلاف ہے، اختلاف کی اصل وجہ انکا فرقہ باطنیہ ہونا ہے، اسماعیلی تاریخ کے مطابق ان کے تینتالیسویں امام حسن علی زکرہ نے ظاہری شریعت ختم کرکے باطنی شریعت برقرار رکھی، جسکی وجہ سے انھیں فرقہ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے، اور اختلافات بھی یہاں سے شروع ہوئیں ہیں،
کہتے ہیں چترال میں یہ اختلافات 80 کی دھائی سے پہلے اتنے شدید نہیں تھے اسی کے بعد دو مرتبہ مذہبی فسادات کے بعد اختلافات اور دوریاں بڑھ گئی تھی، مگر اب کی بار پرنس کریم صاحب کے دورے کا جب اعلان ہوا، تو سنی مکتب فکر کے علماء، ادباء، اور شعراء غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے خوش آمدید کہہ کر خیر سگالی کے جذبوں کا اظہار کرتے ہوے نئی روائت قائم کی ہیں، جو کہ چترال کی امن ترقی اور خوشحالی کے لئے انتہائی سود مند ہے، البتہ کچھ جذباتی عناصر اب بھی دونوں طرف موجود ہیں ، اسماعیلی برادری یا علی مدد کا قائل ہے جبکہ اہل سنت غیراللہ سے براہ راست مدد کو شرک سمجھتے ہیں، یہ باتیں علماء دلیل کی بنیاد پہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں، مگر عوام دلیل نہ ہونے کیوجہ سے جذباتی ہو جاتے ہیں، کچھ اسماعیلی جذباتی نوجوان براہ راست اس قسم کا پوسٹ کرتے ہیں تو اہل سنت نوجوان براہ راست فتویٰ لگاتے ہیں، یا کچھ اسماعیلی دوست اپنے امام سے محبت کا اظہار کرتے ہوے کچھ ایسے القابات سے پکارتے ہیں جنھیں اہل سنت انبیاء علیہم السلام کیلیے مخصوص سمجھتے ہیں، تو کچھ نوجوان پھر جذباتی ہو جاتے ہیں، اور پھر سے دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں، اس لئے دونوں طبقوں کے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں، کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے آج ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ نفرت ہر برائی کی جڑ ہے، اور محبت میں ہر درد کی دوا اور ہر مسئلے کا حل ہے، اس لئے اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا اور امام پرنس کریم آغا خان صاحب کی آمد کے موقع پر ہم انھیں محبت کا پیغام دیتے ہیں، اور ہماری دعاہے کہ پرنس کریم صاحب کی آمد کے بعد چترالی عوام کے درمیاں رہی سہی دوریاں بھی ختم ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں