348

صداکرچلے۔۔۔پروفیسر رفعت مظہر

fff
پاکستان میں سیاسی شعورکو جلابخشنے میں سب سے مؤثرکردار ہمارے آزاداور بیباک میڈیاکا ہے۔دَس ،بارہ سال پہلے صرف پی ٹی وی ہی ہوتاتھاجو دن رات صرف حکومتِ وقت کے گُن گاتا رہتا۔پھر پرویزمشرف کے دَورمیں الیکٹرانک میڈیاکا رواج ہوا ، نیوز اورانٹرٹینمنٹ چینلزکھلنے شروع ہوئے اور کھلتے ہی چلے گئے۔ انٹرٹینمنٹ چینلزنے اسلامی تہذیب وتمدن اورمعاشرت کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں اور نیوزچینلز کی بدولت سیاسی شعوربیدارتو ضرور ہوالیکن تصادم کی فضاء اورچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے ذمہ داربھی یہی۔ نیوزچینلز پربیٹھے ’’کھمبیوں‘‘ کی طرح اُگے اینکرزاور ’’اینکرنیوں‘‘ (نذیرناجی انہیں چھاتہ بردارکہتے ہیں)کامطمأ نظرچینلزمالکان کوریٹنگ دینا خواہ اِس کے لیے حقائق کوکتنا ہی توڑمروڑ کرپیش کیوں نہ کرناپڑے ۔ناظرین کسی بھی مرد یاخاتون اینکرکو دیکھ کرہی پہچان جاتے ہیں کہ اُس نے کس سیاسی جماعت کے حق میں ڈنڈی مارنی ہے۔ تسلیم کہ کچھ اینکر ایسے بھی جو صحافت میں کثافت کی آمیزش سے بالاتر اوربیزارلیکن یہ ہیں کتنے؟۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کوگندا کردیتی ہے لیکن جہاں پورا تالاب ہی گندی مچھلیوں سے بھرا ہو وہاں چند’’ اچھی مچھلیاں ‘‘بیچاری سوائے تڑپنے ،پھڑکنے کے اورکر بھی کیاسکتی ہیں۔اصل مألہ یہ کہ ’’سیٹھوں‘‘ نے خالصتاََ کاروباری نقطۂ نگاہ سے الیکٹرانک میڈیاکا رُخ کیااوراب چاروں طرف یہی سیٹھ دندناتے پھرتے ہیں جنہیں قوم سے کوئی غرض نہ ملکی مفادسے۔ اُنہیں تو بس ریٹنگ چاہیے کہ ریٹنگ ہی سے اُن کی تجوریاں بھر سکتی ہے ۔اب تو’’ماشاء اللہ‘‘ ریٹنگ بڑھانے اور’’نمبروَن‘‘ بننے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ سَرشرم سے جھک جاتے ہیں۔
پرنٹ میڈیا کاحال بھی کم وبیش یہی ۔روزمرہ کے واقعات سے ہرکوئی آگاہ کہ دوردراز دیہاتوں میں بھی ٹی وی موجود ،اخبارات کے مستقل قارئین کی ساری توجہ کالموں، تجزیوں اور تبصروں پر لیکن یہاں بھی محض چندہی لوگ جوآبروئے صحافت باقی سب ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ مہم پرنکلے ہوئے ۔سیاسی جماعتوں کی تواپنی اپنی ڈفلی اور اپنااپنا راگ، ہرکوئی بزعمِ خویش اُفقِ سیاست کاماہِ منور اوراپنے سچ میں’’حسبِ ذائقہ‘‘ جھوٹ کاتَڑکہ لگانے کاماہر لیکن اب تویہ مرضِ بَد ہمارے لکھاریوں میں بھی بدرجۂ اتم موجودکہ اپنے ممدوح کی مدح سرائی میں اتنا جھوٹ تو ’’عین عبادت‘‘ہے دوستو ! ۔ اگراتنا بھی نہ کرسکے توپھردرِ ممدوح پہ ’’کِس مُنہ سے جاؤ گے ۔۔۔۔‘‘کچھ لکھاری ایسے بھی جن کے پاس کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے جب کچھ باقی نہیں بچتا تو وہ ذاتی تعلقات کی نمائش کی ’’پوٹلی‘‘ کھول بیٹھتے ہیں۔ اُن کاخیال ہے کہ ایسے کالموں سے ’’رُعب شُعب‘‘ بھی پڑتاہے اور’’ٹہور شہور‘‘بھی ہوجاتی ہے۔ قاری پرتو اِس کا’’کَکھ‘‘ اثرنہیں ہوتا البتہ لکھاری کااحساسِ کمتری ضرورظاہر ہوجاتا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس (PFUC ) نوجوان کالم نگاروں کی ایسی ’’نئی نویلی‘‘تنظیم ہے جوفی الحال تو ایسی آلائشوں سے پاک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قلیل ترین عرصے میں یہ تنظیم بغیرکسی ’’سیاسی پناہ‘‘ کے اپنا ’’دھماکے دار‘‘ تعارف کرواچکی۔ اچھّی بات یہ کہ خارزارِ صحافت میں قدم رکھنے والے یہ نوجوان لکھاری اکثرسینئر لکھاریوں سے کَسبِ فیض حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے رہتے ہیں لیکن مطمئ نظر یہ ہرگز نہیں کہ
اپنی طرف سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اخبار میں تو نام میرا چھاپ دیجئے
یہ تونوجوانوں کا ایسا گروہ ہے جواپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے نکل کھڑاہوا۔ اِس ’’انبوہِ لکھاریاں‘‘ میںآپ کو پیپلزپارٹی کے جیالے بھی مِل جائیں گے اورنوازلیگ کے متوالے بھی، تحریکِ انصاف کے شیدائی بھی اورجماعتِ اسلامی کے فدائی بھی، لیکن سبھی باہم شیروشکر ،ایک دوسرے کی بات سننے ،سمجھنے،ماننے والے کہ نقطۂ ارتکازفلاح واصلاحِ معاشرہ۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر ہماری سیاسی جماعتیں بھی ملک وقوم کورفعتوں سے روشناس کرانے کی خاطر اِن نوجوانوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسا ہی ’’اکٹھ‘‘ کرلیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔یہ ہماری خواہش توہو سکتی ہے لیکن ہم آپ سبھی جانتے ہیں کہ ایساہونا ممکن تھا ،ہے اورنہ ہوگا۔ اِن نوجوانوں کی تعریف وتوصیف میں کچھ لکھناکارِبیکار کہ ’’ہاتھ کنگن کوآرسی کیاہے‘‘ البتہ قلیل ترین عرصے میں اپنے قدم جمالینے والوں کے بارے میںیہ توکہا جاسکتا ہے کہ ’’ہونہاربروا کے چکنے چکنے پات‘‘۔ اب ایسابھی نہیں کہ وہ کامل ہوچکے ، ابھی بہت ساسفر باقی اورارتقائی منازل کے سبھی زینے سدِّ راہ۔ایک خوف بہرحال دامن گیرکہ جب یہ نوجوان اپنی مقبولیت کی (انشاء اللہ)انتہاؤں کو چھونے لگیں گے توکہیں اِن کی گردنوں میں بھی ’’مقبولیت کاسریا‘‘ تونہیں آجائے گا؟۔
پچھلے دنوں PFUC کے زیرِ انتظام ’’فنِ کالم نگاری‘‘پر سالانہ تربیتی ورکشاپ کاسوائے ہوٹل میں اہتمام کیاگیا جس میں سینئر کالم نگارمجیب الرحمٰن شامی ،سجادمیر ،ڈاکٹراجمل نیازی ،گلِ نوخیز اختر، سلیمان عابد،اختر عباس ،پروفیسر رشیدانگوی اورڈاکٹرشفیق جالندھری سمیت ملک بھرسے آئے ہوئے چیدہ وچنیدہ لکھاریوں نے شرکت کی۔ اِن احباب نے مختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے جرنلزم کے طلباء کو فنِ کالم نگاری کی نئی جہتوں سے آگاہ کیا، لُبِ لباب یہ کہ اچھّا کالم وہی جو دِل سے نکلے اوردِل میں ترازو ہوجائے ۔ تقریب کے اختتام پرسینئر کالم نگاروں نے شرکاء میں ایوارڈز اوراسناد تقسیم کیں۔یہ پُررونق اور پُروقارتقریب پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس کے عبدالماجد ملک، حافظ زاہد اورفرخ شہبازکی کوششوں اورکاوشوں کا ثمرتھی۔ اب یہ PFUCکے میرِ کارواں شہزادچودھری کا فرضِ عین ہے کہ اگر اُنہوں نے جذبۂ تعمیرکے ساتھ یہ ’’لشکر‘‘ ترتیب دیاہے تو پھراِس کی کچھ اِس ڈھب سے رہنمائی بھی کریں کہ وہ اپنے کالموں میں غیر جانبداری کابھرم رکھتے ہوئے تعمیری تنقیدکرتے ہوئے بے جاتوصیف سے پرہیز کریں کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس میں ملک وقوم کی بہتری مضمراورصحافت ،عبادت میں ڈھل سکتی ہے۔ اِن نوجوانوں کے جوش وجنوں کودیکھ کردِل سے دعانکلتی ہے کہ
خُدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گُل کہ جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں