384

سوشل میڈیا کا استعمال ……………….تحریر نورالہدیٰ یفتالی)

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہے ’’القرطاو المکتوب‘‘یعنی لکھا ہوا مواد ، صحافت کی ایک یہ بھی ہے کہ وہ چھپا ہوا مواد جو مختلف وقفوں کے بعد شائع ہو تا ہے ۔ صحافت کسی بھی قوم کے ذہن کی تعمیر ونشونما میں اہم کر دار ادا کر تی ہے ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلام کے زرین اصولوں پر کار بند ہیں اور اسلامی صحافت کا بنیادی لفظ اور محور عمل امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔ اچھائی کے فروغ اور برائی کے روک تھام کے ہے ۔قلم کے ذریعے جد وجہد کر نا اسلامی صحافت کا بنیادی فریضہ ہے ۔ صحافت بہت مقدس پیشہ ہے اس پیشے کے بہت سارے اصول ہیں ۔ البتہ یہاں چند ضروری شرائط کا ذکر کر نا ضروری سمجھتا ہوں ۔
۱۔ پہلی اور اہم شرط کی یہ ہے آپ جو کچھ بھی کہنا ، لکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ بات خود غلط نہ ہو اورجو کچھ آپ لکھنا یا کہنا چاہئے ہو وہ حق ہو ۔
۲۔ دوسری شرط یہ ہے نیت حق پر ہو جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ خیر خواہی کے جذبے سے کہی جا ئے ۔ اپنی ذاتی رائے ، اپنی بڑائی اور مخاطب کو رسوا کر نا ہر گز مقصود نہ ہو ۔ اسی طرح بات میں تعصب نہ ہو بلکہ پوری ایمانداری اورصداقت سے ایسی بات کہی جائے جو حق و انصاف کے تقاضوں پر پوری طرح اُترتی ہو ۔
۳۔ تیسری شرط یہ کہ صحافت کا طریقہ حق بھی ادا ہو وہ سنت انبیاء کے مطابق ہو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے عین مطابق ہو ۔
اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے یعنی : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو ۔
زمانہ قدیم میں جب کاغذ نہ تھا ۔ چھپا خانہ نہ تھا اسی وقت تب بھی ترسیل ذرائع کی خبریں تب بھی بہر کیف ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی
جا تی تھی ۔ دور قدیم میں یہ طریقہ عام تھا کہ چٹانوں وغیرہ پر کندہ کیا جا تا تھا ۔ اب وقت بدلتا گیا دور حاضر کا دائرہ وسیع ہو گیا خبر رسانی کے ذرائع جدید ہو گئے ۔ صحافت ایک علم و فن کی حیثیت اختیار کی گئی ہے ۔ صحافت کی تیز رفتاری کا تعلق دور جدید ایڈونس ٹیکنالوجی کی بدولت ہے۔ موجودہ دور میں صحافت کو Mediaکا نام بھی دیا جاتا ہے۔ پرنٹ میڈیا Print Mediaاخبارات اور الیکڑانک میڈیا ریڈیو ،ٹی وی ،انٹرنیٹ تصویری صحافت شامل ہے سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے۔ جو لوگوں کو اظہار رائے تبادلہ خیال ،تصویر اور ویڈیو سنٹر کی اجازت دیتا ہے۔ جس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا گلوبل گاؤں کی صورت اختیار کی ہے۔ سوشل میڈیا میں زیادہ تر لوگ فیس بک،ٹویٹر،یوٹیوب ،گوگل پلس لنکڈان وغیرہ زیادہ تر استعمال کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے وجود میں آنے کے بعددنیا کے حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کی زندگی بہت آسان بنا دی ہے۔ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے میلوں دور کے رابطے کو آسان بنا دی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے استعمال کے لئے وقت اور جگہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تازہ ترین واقعات وحالات سے آگاہی ہمیں آسان طریقے سے ملتی ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ہمیں سہولت میسر کی ہے۔ ایسی سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ یہ سوچ ہمیں کچھ بھی لکھنے ،بولنے کے لئے Provokeکرتا ہے ۔ ہم اپنی پسند کے مطابق لوگوں سے دوستی کرتے ہیں۔ ان سے رابطے بڑھاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں بغیر ثبوت کے کچھ بھی لکھتے ہیں۔ یہاں تک ہم دوسری لوگوں کی زندگی ان کی کردار پر بحث کرتے ہیں۔ جبکہ ہمیں ان موضوع بحث لوگوں کی زندگی ان کی کردار پر بحث کرتے ہیں۔ جبکہ ہمیں ان موضوع بحث لوگوں سے کچھ بھی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن اسی سوشل میڈیا کو ہتھیار بناکر اپنی پسند اور ناپسند ،سیاسی ،مذہبی،علاقائی اور ملکی التوا پر بات کرتے ہیں۔ جب کوئی ہمیں اس پر عمل سے باز رہنے کی تاکید کرے ہم اظہار رائے اور صحافت کا دور کہہ کر برائے وثوق سے اپنا دفاع کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صحافت بے لگام ہے لیکن اس کے بعد چند اصول ہیں جو ہم سمجھتے ہوئے بھی نذر اندا ز کردیتے ہیں۔ ہم فیس بک اور Twitterکو بھی صحافت کی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور ہم اپنے آپ میں ایک برائے نام صحافی بن چکے ہیں۔ آئے روز اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی غیر ضروری باتوں کو لے کر موضوع بحث بناتے ہیں۔ کسی بھی شخصیت کو موضوع بحث بناکر اس کی ذات پر جاکر طعنے دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس جر م کا احساس نہیں ہے۔ کہ سوشل میڈیا میں کچھ اصول اور ضوابط ہیں۔ وہ ایک دن ہمارے اس طرز کی حرکتوں کی وجہ سے در د سر بن سکتے ہیں۔ فیس بک اورr Twitteپر صحافت کی اڑ میں بیٹھ کر جو چیزین ہم موضوع بحث بنا لیتے ہیں۔ جو کسی بھی صورت ایک مہذب شہری کو زیب نہیں دیتا۔
ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ سوشل میڈیا پر خبرین اور معلومات اگ کی طرح پھیلتی ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ایک مہذب ملک کی شہری ہونے کے ناطے بغیر اطمینان اور تصدیق کے سوشل میڈیا پر دی گئی ۔ کوئی خبر شیئر نہ کی جائے اور یہ صحافت کے اصولوں میں شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا بے لگام ہوتا جارہاہے۔
ہمارے نبی ﷺنے بھی بغیر تصدیق کے بات پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔ بلکہ اس عمل کو اچھا یا برا بھی ہم خود بناتے ہیں۔ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بھی طریقے ساتھ ہوئے ہیں ۔یہ ہم پر عائد ہوتی ہے۔ کہ سوشل میڈیا کا استعمال اور اس کے مقصد کو سمجھ کر کرنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں