289

داد بیداد ۔۔۔خطر ناک راستہ ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

2018 کے انتخابا ت میں دینی جماعتوں کی تعداد 18 ہو جائیگی اور سب ایک دوسرے کے خلاف میدان آجائینگی پاکستان اسلامی ممالک کی صف میں ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمان آپس میں سب سے زیادہ لڑتے ہیں اس حوالے سے اخبارات میں ایک کارٹون کی دھوم مچی ہوئی ہے کارٹون میں ایک عرب شیخ دوسرے شیخ سے پوچھتا ہے یا شیخ !اسرائیل کے خلاف کب لڑینگے ؟دوسرا شیخ کہتا ہے جب اسرائیلی مسلمان ہونگے ان کے ساتھ ہماری لڑائی شروع ہوگی جاپان ،چین ،یورپ اور امریکہ میں بھی پاکستانی فرقوں کی الگ الگ مساجد ہوتی ہیں اور وہ آپس میں لڑتے ہیں حجاز مقدس جانے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں امام کے پیچھے نما ز نہیں پڑھتی اپنی نمازیں یہ لوگ الگ پڑھتے ہیں مولانا محمد اکرام اعوان مرحوم کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا مولانا طارق جمیل بھی اس بات پر غم اور رنج کا اظہار کرتے ہیں کہ حج اور عمرہ کے مبارک سفر پر جانے والوں کواُلٹی پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ حرمین میں امام کے پیچھے نماز نہ پڑھو ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک مرحوم کہا کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستانی مسلمان ایک ہی مذہب کے تھے کوئی تفریق نہیں تھی 1970 سے1980 تک میں نے چار سدہ ،سوات ،پشاور اور اسلام اباد میں بڑے بڑے مذہبی اجتماعات میں شرکت کی ہے چار سدہ میں مولانا فضل ربی معدن کا بڑا نام تھا 1972 ء میں مولانا حسن جان شہید مدینہ منورہ سے آگئے پشاور میں مولانا محمد امیر بجلی گھر اور مولانا ایوب بنوری کی شہر ت تھی میں نے سیرت کے جلسوں میں دیکھا ہے کہ آمین بالجہر پڑھنے والے اور رفع یدین کرنے والے ان جلسوں اور اجتماعات میں شریک ہوتے تھے اور ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے 1981 ء میں پہلی بار اندرون شہر کی ایک مسجد میں دیو بند ی بریلوی جھگڑا ہوا مسجد کو تالا لگا کر بند کیا گیا اسی طرح محرم کے جلسوں میں شہر اورصدر کے عوام اور خواص بلا تفریق شریک ہوتے تھے اور غزاداروں کی خدمت کر تے تھے سبیل لگاتے تھے قصہ خوانی اور صدر روڈ پر مجالس میں بلا تفریق سب کی شرکت ہوتی تھی 1980 کی دہائی میں حالات بگڑ گئے بحث مبا حثے اور مناظرے کی جگہ قتل مقاتلے شروع ہوئے اس کے بعد یہاں تک نوبت آئی کہ ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی ایک تحریک چلی جس کے سربراہ نے فتویٰ جاری کیا کہ سیاسی جماعت بنانے والے بھی کافر ہیں ووٹ دینے والے اورووٹ لینے والے بھی کافر ہیں اس فتویٰ کے جواب میں ایک تجزیہ نگار ے لکھا کہ اگر یہ فتویٰ برحق ہے تو پھر ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی کیا ضرورت ہے ؟یہاں اکثریتی آبادی ووٹ لیتی بھی ہے اور دیتی بھی ہے اس تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ 2018 کے الیکشن کی تیاری کیلئے 18 مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئی ہیں گویا ملک میں نفاذ شریعت اور نظام مصطفی کے لئے کام کرنے والوں کے ووٹ 18 الگ الگ پارٹیوں میں تقسیم ہونگے اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس پر بہت غور وخوض ہوا تین بڑی وجوہات سامنے آگئی ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ جو عزت ،دولت اور شہرت ایک سیاسی جماعت بنانے میں ہے وہ خانقاہ یا مدرسہ چلانے میں نہیں حکومت جس طرح کا پروٹوکول احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں کو دیتی ہے ایسا پروٹوکول خانقاہ اور مدرسہ والوں کو نہیں دیتی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے باہر امداد دینے والے گروہ موجودہیں جو مدرسہ اور خانقاہ کو امداد نہیں دیتے ،سیاسی جماعت کو مالی امداد دیتے ہیں ان کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت بناؤ ،پریشر گروپ بنو تو ہم امداد دینگے بلکہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دینگے تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کا دینی ذوق بدل گیا ہے پاکستانی عوامُ زہدو طاعت ،عبادت اور درس تدریس کی جگہ ہلڑ بازی ،دھرنا ،ہڑتا ل ،جلسہ اور جلوس کو پسند کرتے ہیں علمی گفتگو کی جگہ گالم گلوچ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اُس عالم کو پسند کرتے ہیں جس کی زبان سے شعلے نکلتے ہوں چنانچہ 2018 کے انتخابات میں مولانا سمیع الحق کی جماعت سب سے زیادہ تیر مولانا فضل الرحمن کی جماعت پر ہی بر سائے گی ،اشاعت التوحیدِو سّنتہ والے بھی مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو ہدف تنقید بنائینگے ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ والے بھی قومی دھارے کی دو جماعتوں جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)اور جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنائینگے پہلی بار ایسا ہوگا کہ اہل حدیث کی دو الگ جماعتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہونگی بریلویوں کی چا ر جماعتیں اور دیوبند یوں کی 12 پارٹیاں ایک دوسرے پر تنقید و ملامت کے تیر چلائینگی یہ انتہائی خطرناک راستہ ہوگا ترکی میں 1920 کا عشرہ ایسا ہی تھا اللہ تعالیٰ نے مصطفی کمال اتاترک کی صورت میں ایک مرد مجاہد کو زمام کار اور اختیار دیدیا اُس نے سیکولر ترکی کی نعرہ لگایا اور کم و بیش 80 سالوں تک ترکی کو سیکولر سٹیٹ کی حیثیت حاصل رہی اس وجہ سے ترکی ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ گیا موجودہ حالات میں علمائے حق کی ایک جماعت کو اس کا ادراک ہے مولانا تقی عثمانی اور مولانا طارق جمیل نے اس خطرناک رجحان کی طرف اسلا م کے شیدائیوں کی توجہ دلائی ہے مگر نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں