Site icon Daily Chitral

مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور پر امن بقائے باہمی..چترال کے خصوصی تناظر میں ۔۔۔۔۔تحریر:ڈاکٹر ظہیر الدین بہرام

نو (9) دسمبر 2017ء بروز بدھ اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا اور انچاسویں امام شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم نے چترال کا دورہ کیا اور دو مقامات گرم چشمہ اور بونی میں اپنے پیروکاروں کو دیدار کا شرف بخشا۔ دونوں مقامات پر اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اورامن وامان کو علاقے کی ترقی کے لئے ناگزیر قرار دیا اور کہاکہ اسلام امن ومحبت کا دین ہے اور ہمیں اسے دوسروں تمام چیزوں پر مقدم رکھنا چاہئے۔

پرنس کریم آغا خان اس سے قبل بھی  کم از کم دو مرتبہ چترال کا دورہ کرچکے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کے دورے کی خاص بات یہ تھی کہ اسماعیلی برادری  کے ساتھ ساتھ سنی مکتب فکر کے لوگوں نے  بھی ان کا پرتپاک استقبال کیا اور  اسماعیلی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سر آغا خان کے لیے تہنیتی بیانات اور خیر مقدمی پیغامات کا سلسلہ دورے سے کافی پہلے سے شروع کیا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں نہ صرف سنی مسلک کے سیاسی وسماجی شخصیات نے مثبت کردار ادا کیا بلکہ اہل سنت کے دینی جماعتوں اور  اکثر علماء کی طرف سے بھی انتہائی رواداری اور وسعت نظر  کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ رواداری اور بھائی چارہ اس بہتریں ماحول میں دونوں مکاتب فکر کے چند نادان عناصر کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بلکہ مجرمانہ رویے کے اظہار نے ماحول کو  وقتی طور پر کشیدہ بنایا ہوا ہے۔ امید ہے کہ چترال کے باشعور لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن و امان،  بھائی چارہ اور رواداری کے ماحول کو یقینی بنائیں گے۔

اس سلسلے کا آغاز اسماعیلی طبقے کی طرف سے سوشل میڈیا پر کھل کر  اپنے امام کے لیے ایسے جذبات کا اظہار کیا گیا  اور  ایسے القابات واصطلاحات  کا استعمال کیا گیا جو اسماعیلیوں  کے ہاں تو شاید حاضر امام کے ساتھ عقیدت اور  محبت کا اظہار تھا لیکن اس میں اہل سنت والجماعت والوں کے لیے دل آزاری اور اشتعال دلانے  کا پورا سامان موجود تھا کیونکہ وہ ایسے جذبات صرف ابنیاء کے لیے رکھتے ہیں اور کسی بھی دوسری شخصیت کے لیے  ان اصطلاحات اور القاب کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس لیے اہل سنت کی طرف سے عمومی طور پر جذبات کے اظہار کے اس انداز اور انبیاء کے لیے مخصوص القابات کو امام کے لیے استعمال پر  ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور  بعض لوگوں کی طرف سے ردِ عمل میں مظاہروں اور سوشل میڈیا پر جوابی تبصروں کی صورت میں سامنے آیا۔

اس سلسلے میں دونوں مکاتب فکر کے پیروکاروں اور ان کے زعماء کے لیے چند باتیں  قابل توجہ ہیں:

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿االتوبة ٢٤ترجمہ: اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

ایکاور آیت میں ارشاد ربانی ہے: النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ . . .  ﴿الأحزاب ٦﴾  ترجمہ: بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّه عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: “لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ“. متفق عليه.

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک میں ان کے لیے ان والدین، بچوں اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ بنوں۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ.” صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث رقم ۱5

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس انسان کے اندر تین صفات پائے جائیں تو وہ ایمان کی حلاوت کو پا گیا، ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﷺ سب سے زیادہ محبوب  ہستیاں ہوں، اور جس سے بھی محبت کرے صرف اللہ کے لیے محبت کرے، اور کفر میں واپس جانے کو اتنا ناپسند کرے جتنا کوئی آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے۔

عن عبدالله بن هشام أن عمر بن الخطاب قال للنبي صلى الله عليه وسلم “لأنت يا رسول الله أحب إليَّ من كل شيء إلا من نفسي”، فقال: “لا والذي نفسي بيده، حتى أكون أحب إليك من نفسك”، فقال له عمر: “فإنك الآن والله أحب إليَّ من نفسي”، فقال: “الآن يا عمر”.

ترجمہ: عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ  سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یقینا آپ میرے لیے میری جان کے علاوہ ہر  چیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک میں تیرے لیے تمہاری نفس سے بھی زیادہ  تمہیں محبوب نہ ہوں  (تو تیرا ایمان  کامل نہیں ہوگا)، تو سیدنا عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہستی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر  (رضی اللہ عنہ) اب ٹھیک ہے (تم نے صحیح رویہ اپنایا)۔

ان واضح قرآنی  آیات اور احادیث  کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کسی مسلمان کے دل میں کسی بھی شخصیت یا چیز  کے لیے  رسول اللہ ﷺ سے زیادہ  محبت وعقیدت اور ایمان یکجا نہیں ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے سب سے بڑھ کر  ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا جائے ورنہ ان ﷺ  پر ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں سمجھا جائے گا۔

اللہ تعالی اپنے دین کا صحیح فہم ، اس پر عمل کی توفیق اور اس کو دوسروں تک پہنچانے  کا موقع نصیب فرمائے۔ اور وطن عزیز کے اس پُر امن ترین خطہ چترال کی امن و امان اور مذہبی رواداری  کو برقرار رکھے۔ آمین۔

Exit mobile version