233

’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی حاکمیت ۔۔۔۔۔ پروفیسر مظہر ء

رَگ وپے میں اُترتی مایوسی و بیزاری اتنی کہ قلم نے بھی بغاوت پر آمادہ۔ اُسے رام کرنے کے لیے گھنٹوں بلکہ پہروں جہدِ مسلسل کرنی پڑتی ہے،تب کہیں جا کرکالم کا پیٹ بھرنے کے لیے چند شکستہ الفاظ گھسیٹ پاتاہوں۔ شاید وجہ یہ کہ اِس پاک سرزمین کو ’’مہربانوں‘‘ نے نفرتوں اور کدورتوں کے ایسے ریگزاروں میں ڈھال دیا ہے جہاں قلم کی آبرو مفقود اور ابرِ نیساں کی آرزو حماقت ،محض حماقت۔ یہ تو وہ دھرتی ہے جہاں تلاشِ ذات میں نکلے پرندے نوکِ سنا پر سجتے اور لازمۂ انسانیت سے تہی کرپشن کے مگرمچھ مجبوروں کو سالم نگلتے نظر آتے ہیں مگر اُن کی سیری پھر بھی نہیں ہوتی۔ یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے ہم نے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے دعوے تو بہت کیے لیکن حالت یہ کہ یہاں عدل بھی متنازع اور عادل بھی ۔ احتساب محض خواب اور سراب ۔ جنہیں بچانا مقصود ہو اُن کے لیے ’’ نظریۂ ضرورت‘‘ اور جن کو’’مائنس‘‘ کرنا ہو ،اُن کے لیے ’’اقامہ ‘‘ ۔ جب ایسے فیصلے آئیں گے جنہیں سُن کر وکلاء بھی انگشت بدنداں ،تو پھر افراتفری لازم۔
میاں نوازشریف نے کہا ’’نیازی سروسز کا عمران خاں خود اقرار کر چکے ہیں ،اُن کا ویڈیو بیان بھی دیکھ سکتے ہیں لیکن اُن کی صفائی خود ’’بنچ‘‘ نے پیش کی۔بنچ نے وکیل بن کر میرے خلاف عمران خاں کا کیس لڑا ۔ وزیرِاعظم کو اقامے پر نکال دیا جاتا ہے اور جو شخص اعتراف کرتا ہے ،اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میری خیالی تنخواہ ’’اثاثہ‘‘اور عمران خاں کالاکھوں پاؤنڈ کا کاروبار اثاثہ نہیں۔ یہ سودا اب نہیں بِکے گا۔ پچاس سال پہلے شروع ہونے والے نظریۂ ضرورت کا اب انجام ہونے والا ہے‘‘۔ میاں صاحب نے آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان محترم میاں ثاقب نثار نے لاہور میں پاکستان بار کونسل کے زیرِاہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح گاؤں میں ایک بابا رحمت ہوتا ہے جو گاؤں کے لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے اور سبھی اُس فیصلے پر سرِتسلیم خم کرتے ہیں ، اسی طرح عدلیہ بھی قوم کا ’’بابا‘‘ ہے جس کی عزت کرنا ہر بندے کا فرض ہے۔ آپ اپنے بابے پر شَک نہ کریں اور اُسے گالیاں نہ دیں۔ چیف صاحب کا یہ نصیحت نما حکم سَر آنکھوں پر۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہمارے ’’بابوں‘‘ نے گزشتہ سات عشروں میں ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا جسے نظیر بنا کراُن کی آن ،بان اور شان پر کوئی حرف نہ آنے دیا جائے اور اُن کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر دیا جائے؟۔ ہم نے تو عدلیہ کو ہمیشہ آمروں کی مونس وغمخوار ہی دیکھا۔
اگر محترم عدلیہ کبھی نہ لی جانے والی تنخواہ کو اثاثہ ثابت کرنے کے لیے ’’بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کا سہارا لے سکتی ہے (یہ الگ بات کہ اِس ڈکشنری کے کسی بھی ایڈشن میں ’’اثاثے‘‘ کی وہ تعریف درج نہیں جسے بنیاد بنا کر منتخب وزیرِاعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا) تو پھر کسی ایسی ہی ڈکشنری کا سہارا لے کر ’’نظریۂ ضرورت‘‘‘ کو بھی آئین و قانون کے عین مطابق ثابت کر دیجئے تاکہ ’’بابوں‘‘ کے احترام میں کمی نہ آئے۔ اگر ایک وزیرِاعظم کو ’’گاڈ فادر اور سسلین مافیا‘‘ جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے تو پھر اُسے ثابت کرنا بھی عدلیہ ہی کی ذمہ داری ہے صرف ’’اقامے‘‘ سے بات بنتی ہے نہ عوام اسے تسلیم کرنے کو تیار۔ محترمہ مریم نواز نے بالکل بجا کہا ’’مائی لارڈ ! کیا آپ کا بابا واٹس ایپ بھی کیا کرتا تھا؟‘‘۔ محترم جسٹس (ر) وجیہ الدین ،جن کی دیانت مسلمہ ،وہ بھی حیران کہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن پر پانچ سال کی قدغن لگانے کی ضرورت کیوں اور کِس قانون کے تحت پیش آئی۔ اُنہوں نے کہا ’’کیا الیکشن کمیشن میں بچے بیٹھے ہیں؟‘‘۔ عرض ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خودمختار آئینی ادارہ ہے جسے اپنے فیصلے خود کرنے چاہییں نہ کہ کسی دباؤ کے تحت ۔ اُس پر فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری میں پانچ سال کی پابندی کیوں؟۔ جب ملک کے وزیرِاعظم کا 1962ء سے احتساب کیا جا رہا ہے تو پھر وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار کے لیے محض پانچ سال کیوں؟۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متنازع پانامہ کیس فیصلے میں تو انتہائی سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم کو تاحیات نااہل قرار دے دیا جبکہ عمران خاں کیس میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ آف شور کمپنی کے عمران خاں ڈائریکٹر تھے نہ شیئر ہولڈر ۔ نیازی سروسز لمیٹڈ کو لندن فلیٹ کی قانونی ملکیت حاصل کرنے کے لیے بطور کارپوریٹ ذریعہ استعمال کیا گیا جس کے بینیفیشل اونر عمران خاں تھے۔ اِس لیے عمران خاں قانونی طور پر پابند نہیں کہ وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن میں جمع کروائے جانے والے اپنے انکم ٹیکس ڑیٹرن یا اپنے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں میں نیازی سروسز لمیٹڈ کو اثاثے کے طور پر سامنے لائیں۔ ۔۔۔۔ حیرت ہے کہ میاں نوازشریف پانامہ پیپرز کے مطابق نہ تو کسی آف شور کمپنی کے مالک تھے ،نہ ہی حصے دار۔ اُنہیں نااہل کیا گیا تو محض ایک اقامے اور اُس تنخواہ کو بنیاد بنا کر جو کبھی وصول ہی نہیں کی گئی جبکہ عمران خاں اُس جائیداد کے بینیفیشل اونر ہیں جو نیازی سروسز لمیٹڈ کے ذریعے خریدی گئی ، پھربھی وہ صادق وامین ٹھہرے۔ عمران خاں پر لگائے گئے الزامات کو رَد کرنے کے فیصلے سے سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف کے اِس بیان میں وزن پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کا مقصد محض اُنہیں ہدف بنانا تھا۔ وہ جو کچھ 28 جولائی سے متواتر کہتے چلے آرہے ہیں ،وہی درست ثابت ہو رہا ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایوبی آمریت سے مشرفی آمریت تک ہمارے انہی محترم بابوں نے آمریتوں کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اُن کے دست وبازو بھی بنے اور بار بار نظریۂ ضرورت کے تحت اُنہیں حقِ حکمرانی بخشتے رہے۔ تاریخِ پاکستان میں محض ایک موقع ایسا آیا جب ایک آمر نے ہی عدل کے اونچے ایوانوں کو لرزہ براندام کرنے کی کوشش کی۔ تب میاں نوازشریف سمیت پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی۔ میاں صاحب نے تو اپنے تمام ٹکٹ ہولڈرز سے یہ حلف بھی لیا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور حصہ لیں گے۔ قوم نے اُس وقت تک سُکھ کا سانس نہیں لیا جب تک عدلیہ بحال نہیں ہو گئی۔ ہمیں آج بھی اپنی عدلیہ سے پیار ہے اور اُس کا احترام واجب لیکن سوال یہ کہ قوم کے بابے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کو کب دفن کریں گے؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں