Site icon Daily Chitral

شاہ جی۔۔۔ کرپشن کے خلاف جنگ۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی


جب گدھا سنبھالا نہیں جا رہا تھا تو کسی عقل مند نے مشورہ دیا کہ کچھ بھی نہ کرو بس روزانہ اس کے سامنے جا کر ہاتھوں کو ایسے حرکت دو کہ زمین سے رسی اٹھا رہے ہو۔ اور خیالی طریقے سے ہی وہ رسی گدھے کے گلے میں ڈالو۔ اور حیران کن طریقے سے گدھا خیالی رسی کو قبول کر بیٹھا اور مالک کو تنگ کر نا چھوڑ دیا۔
پاکستانی قوم اور اس گدھے میں بہت کم فرق ہے( غصہ ہرگز نہ کیجئے گا کیوں کہ میں خود گدھوں کی اس قوم کا حصہ ہوں) ۔ جیسے گدھے کے لیے خیالی رسی ہی کافی ہوتی ہے ویسے ہی ہمارے لیے بحثیت قوم خیالی دعوے، کھوکھلے نعرے ، اور شخصیت پرستی اور اب مردہ پرستی ہی کافی ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں شیدا قصائی اگر گوشت کے فی کلو دام 50 روپے زیادہ مانگ لے تو بات تھانے تک پہنچ جاتی ہے پورا محلہ اسے لعن طعن کر رہا ہے ہوتا ہے۔ جب کہ اس ملک کے راہنما اربوں لوٹ کر اغیار کے بینکوں میں بھجوا دیں تو ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ سونے پہ سہاگہ حیرانگی اس بات پہ ہوتی ہے کہ تاویلیں دی جاتی ہیں۔ کرپشن کو ” حلال” ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیے جاتے ہیں۔ کیا کبھی ہمارے محترم ” شاہ جی” کو کبھی معصوم بچوں سے زیادتی پہ بھی جنگ کی سوجھی؟ کیا کبھی کوئی ایسا موقع بھی آیا کہ ہمارے کسی سیاستدان نے کہا ہو کہ بند توڑ کر غریبوں کو سیلاب میں بہا دینے والے کے خلاف بھی اب جنگ ہو گی؟ کیا کبھی یہ بھبھکی بھی سنی آپ نے کہ ہمارے معزز سیاستدانوں میں سے کسی نے بھی کسی ماں کے حالات سے تنگ آ کر خو د کشی پہ اشرافیہ سے اینٹ سے اینٹ بجانے کا واویلا ہی کیا ہو؟ کیا کبھی ہمیں جنگ کی پکار اس وقت سننے کو ملی جب معصوم بچوں کی عصمت دری کر کے لاشیں لٹکا دی جاتی ہیں؟ کیا کبھی اس وقت جنگ کی للکار سنائی دی جب کوئی مزدورصرف دیہاڑی نہ لگنے پہ اپنی سانسیں ختم کر لے؟ کیا جنگ کے لیے زبانیں اس وقت تیز کی گئیں جب کبھی اقلیتوں کو خون میں نہلا دیا جائے؟ کیا یہ جنگی ترانے اس وقت گائے گئے جب لوگ وطن عزیز کی سالمیت پہ وار کرتے ہیں؟ کیا اس وقت جنگ کا منظر نامہ تبدیل ہو جاتا ہے جب ریاست کے اندر ریاست وجود میں آ جاتی ہے؟
نہیں۔ ہرگز نہیں۔۔۔ کیوں کہ جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے ۔ وجہ؟؟؟؟ گریباں چاک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بخیے ادھڑنا شروع ہو گئے ہیں۔اگر ملتان کے مرشدوں پہ ہاتھ پڑنے سے جنگ چھڑ سکتی ہے تو پھر توقیر صادق پہ کیوں توپوں کے دہانے خاموش ہو جاتے ہیں جو میڈیا پہ آ کے کہہ رہے ہیں کہ 54ارب کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ صرف بات نہ ماننے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کل کو اگر NICLسکینڈل میں ایاز خان کو سزا دی گئی تو شاید شاہ صاحب سمیت کوئی بھی جنگ کا اعلان نہیں کرئے گا لیکن اگر اسی NICL سکینڈل میں اگر سابق نائب وزیر اعظم صاحب کے سپوت کو بھی دھر لیا جائے تو پھر یہ انتقامی کاروائی ہو جائے گی ۔ اور یقیناًمعصوم شاہ 300 کروڑ کی کرپشن کرنے کے بعد معصومیت کی سند پانے کے قابل نہیں رہے لیکن ان کی پکڑ پہ کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگے گی۔ لیکن ان صاحب کی گردن کے گرد اگر پھندا کس دیا جائے جس کے یہ معصوم شاہ صاحب معاون خصوصی تھے تو شاید پورے ملک میں جانبداری کا شور بلند ہو جائے۔ اور یقیناًایم سی بی کی نجکاری کی طرف تو کبھی بھی کسی کا دھیان ہی نہیں جائے گا کیوں کہ یہ بھی انتقامی کاروائی ہو گی کیوں کہ اس میں بھی ایک میاں صاحب کی منشاء جو شامل ہے ۔ اور اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ نواب اسلم رئیسانی صاحب پہ ہاتھ پڑا تو جنگ چھڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا اسی لیے تو 100 ملین روپے سے زیادہ کے کیس پہ دھول بٹھانے کی کوشش کی جار ہی ہے کیوں کہ کرپشن تو کرپشن ہوتی ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھیں کہ ایک خاتون سینیٹر صاحبہ پاکستان انٹرنیشل سکول جدہ کے فنڈز میں بھی خرد برد سے باز نہ آئیں۔ کل کلاں کو ان کے خلاف کاروائی ہوئی تو جنگ کا واویلا تو ہو گا ہی صنفی امتیاز کا راگ بھی اپنی جگہ ہو گا۔ اور مہاراجہ صاحب کیوں کہ سابق وزیر اعظم کہلائے جاتے ہیں لہذا ان کے خلاف بھی کاروائی تو بہر حال سوچ سمجھ کر کرنی ہو گی کیوں کہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ملک کی تمام اسٹاک مارکیٹس کو ضم کرنے کا کارنامہ سر انجام دینے والے ڈار صاحب ایک اور حوالے سے بھی اہم ہیں۔ یہ واحد اہم شخصیت ہیں جن کے خلاف دائر کیس میں غیر ملکی کرنسی کا بھی عمل دخل ہے یعنی باقی تمام کرپشن کاروائی صرف پاکستانی روپوں میں ہے۔ “منظور کاکا” اور” چنوں ماموں” اس لحاظ سے بد قسمت رہے کہ ان کے خلاف کاروائی پر جنگ کی تیاری نہیں ہوئی۔ اور ویسے بھی ان پہ تو شاید غصہ بھی ہے ہم کو کہ وہ اس ملک کے سیاستدانوں کو ” ماموں” بنانے کا گر بھولی عوام کو سکھائے بناء ہی روانہ ہو گئے۔ پاکستان کے ہر باشعور شہری کو اپنے علم میں اضافے کے لیے نیب کی سپریم کورٹ میں پیش کر دہ فہرست ضرور پڑھنی چاہیے۔ اور جنگ میں سیاستدانوں کا ہر اول دستہ بننے والے سیاسی کارکن بالخصوص اس کا مطالعہ کریں۔ افا قہ ہو گا۔
شیدا قصائی، مودا ڈینٹر، بالا موچی ، فرید تکے والا۔۔۔۔ ان تمام صاحبان کے لیے عرض ہے کہ آپ ہرگز بھی اپنے خلاف ہونے والی کاروائی پر جنگ کا اعلان نہ کیجیے گا ۔ کیوں آپ لوگوں نے چند سو کی کرپشن کی ہو گی۔ اور اس ملک میں جتنی بڑی کرپشن ہو گی اتنی ہی بڑی سہولت ملے گی۔ اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں لگا لیجیے گا۔ جب گدھوں کی سی صفات رکھنے والی قوم(گدھوں اور دوسرے شریف جانوروں کا گوشت کھا کھا کر)، احتجاج میں اک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے لگا رہی ہو گی ۔ اور کچھ بعید نہیں کہ پنجاب میں بھی احتجاج میں شیر آیا شیر آیا کے نعرے بلند ہو رہے ہوں گے ۔ جنگ کا اعلان یہاں بھی ہو رہا ہو گا کیوں کہ ” آہنی ہاتھ” کا دائرہ تو خبری کہتا ہے کہ پھیلتا جا رہا ہے۔

Exit mobile version