268

“برابری نہیں انصاف”،،،،،،،عنایت اللہ آسیر

ضلع چترال کو نمائندگی سے محروم کرنا اور قومی اسمبلی میں دیر سے ملانا ،چترال کے پسماندگی ، دور آفتادگی اور محرومیاں رسل ورسائل ،صحت و تعلیم اور دیگر شہری حقوق سے محرومی سے انکار ممکن نہیں آبادی کی نہیں رقبے کی وسعت اور مشکل پہاڑی 29وادیوں پر مشتمل ضلع چترال کو دو ضلعوں میں بحال کرنے کی خوشی پر قومی اسمبلی کا دیر کے پسماندہ علاقوں سے ملانا اور ایک حاصل شدہ صوبائی کے سیٹ کو کم کرنے نے پانی پھیر دیا ہے۔
یہ کس طرح قرین انصاف ہے کہ 400کلومیٹر دشوار گزار فاصلے کو ارندو،زیارت سے بروغل گبوراور شندور تک کے 14850مربع میل پر پھیلے ہوئے ضلع کو ایک صوبائی اسمبلی کا ممبر کس طرح ترقیاتی فنڈز سے حصہ دے سکے گا۔اور 50لاکھ روپیہ کا سالانہ فنڈز تقسیم کرنے میں کس طرح انصاف کریگا۔
ہم انتہائی امید سے تھے کہ چترال کی حقیقی مسائل کو دور کرنے اور پسماندگی پر قابو پانے کیلئے حکومت پاکستان خصوصی رعایت کے طور پر ضلع اپر چترال کو بھی ایک قومی اسمبلی کا سیٹ دیکر انصاف کریگا۔
اور چترال کے کیلاش قبائل کو بھی صوبائی اسمبلی میں اور قومی اسمبلی میں ان کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر ایک،ایک نمائندگی دیکر چترال کی مستقل ترقی کا فیصلہ کیاجائیگا۔مگر چترال کی نمائندگی میں کٹوتی نے چترال کے پاکستان دوست پر امن ،مہذ ب باشندوں کو الیکشن کمیشن نے مایوس کیا ہے ۔حاصل مراعات کو ختم کرنا کسی طرح سے انصاف نہیں لگتا۔5مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ترقی یافتہ ضلع کو نمائندگی میں14850مربع کلومیٹرپر پھیلے ہوئے ضلع کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا انصاف نہیں کہا جاسکتا۔
لہذا برابری کے قانون کے بجائے انصاف کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے،ایک موٹے ،تگڑے اور قد آور آدمی کو بھی ایک روٹی ،اور ایک لاغر کمزور اور چھوٹے قد کے آدمی کو بھی ایک روٹی دینا کہاں کا انصاف ہوگا۔
چترال کی پسماندگی اور مشکل جغرافیائی حالات کو پیش نظر رکھ کر ہمارے صوبائی سیٹ کو بحال کیا جائے اور قومی کے سیٹ کے ساتھ دیر کو شامل کرنے کافیصلہ واپس لیا جائے ۔کیونکہ چترال کے باشندوں کے جمہوری فیصلے پر دیر کے ووٹ اثر انداز ہونگے اور چترال کے باشندے اپنے حقیقی نمائندگی سے محروم ہوجائینگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں