346

صد ا بصحرا۔۔۔۔۔چند اخباری سرخیاں۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

اخبارات میں خبروں کی سرخیاں اُن کی اہمیت کے اعتبار سے لگائی جاتی ہیں۔6کالمی سرخی کو شہ سرخی کہا جاتا ہے اس کے بعد درجہ بدرجہ دو کالمی اور ایک کالمی سرخی تک نوبت آتی ہے۔میرے سامنے تین اخبارات ہیں۔فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد کے بیان کو ایک اخبار نے دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ سرخی یوں لگائی ہے کہ ’’فوج اعتکاف اور عدلیہ حجاب میں ہے‘‘ آپ سے کیا پردہ شیخ صاحب کہنا چاہتے تھے کہ عدلیہ ’’عدت‘‘ گذار رہی ہے مگر ان کی زبان پھسل گئی اور عدت کی جگہ حجاب کا لفظ زبان پر آیا سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے عدلیہ حجاب یا عدت میں ہوگی، عوام کے لئے پاکستانیوں کے لئے اور مقدمات کے مارے ہوئے غریبوں کے لئے عدلیہ عالم برزخ میں ہے۔ اس کے بعد قیامت کا آنا باقی ہے۔ البتہ فوج کے بارے میں شیخ صاحب نے جو کچھ فرمایا اس میں کلام نہیں آپ 1979ء سے فوج کے محرم راز ہیں۔ ایک اور تین کا لمی سرخی ہے یہ نواز شریف کا بیان ہے ’’ووٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دینگے‘‘۔پتہ نہیں موصوف خواب میں ہیں یا جاگے ہوئے ہیں یا بقولِ غالب ’’ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے تھے خواب میں‘‘ ان کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ ووٹ کا تقدس تو کب کا پامال ہوچکا ہے۔ 2013ء میں منتخب ہونے والا وزیر اعظم صرف 14بار پارلیمنٹ میں آیا خودکو اگلاوزیر اعظم ثابت کرنے والا دبنگ لیڈر صرف 5بار پارلمینٹ میں دیکھا گیا۔ ووٹ کے تقدس کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سکرٹریٹ کے راز ہائے درون خانہ ڈان لیکس کے سمندر میں غرقاب ہوئے۔ سمندر کی موجوں سے پانامہ لیکس کا تحفہ نکل آیا۔ اس کو کھولا گیا تو اقامہ برآمد ہوا۔ وزیر اطلاعات کی قربانی دی گئی تو شیخ رشید نے سکہ بند تبصرہ کیا ’’ بکری کی قربانی درکار تھی انہوں بکرا ذبح کردیا‘‘ ووٹ کا تقدس بحال کرنا ہے تو ووٹ کے چکر سے باہر نکلو۔ ووٹ کا تقدس بحال ہوگا۔ تین کالمی سرخیوں میں ایک اور سرخی ہے اور یہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا بیان ہے ’’ ملک امیر وں کے لئے نہیں بنا طبقاتی نظام نے مسائل پیدا کئے‘‘ ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے مگر بات ہی ہے اور صرف بات ہے۔ اگر ملک امیروں کے لئے نہیں بناتو یقیناََ اس ملک کی اسمبلی ، اس کے اقتدار اور اس کی حکومت میں غریبوں کا بھی حصہ ہوگا۔ صوبائی اسمبلی کا ممبر کھرپ پتی تاجر، قومی اسمبلی کا ممبر کھرپ پتی جاگیردار، ضلع ناظم کھرپ پتی صنعت کار، پارٹی لیڈر کھرپ پتی سرمایہ دار، دوسرے تمام عہدوں پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ دیکھ کر ہم مجبوراََ کہتے ہیں ملک امیروں کے لئے بنا ہے۔ غریب سے تو پارٹی لیڈ ر ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ روس ،چین ، امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی طرح کسی مزدور کے بیٹے کو اسمبلی کا ٹکٹ دے کر دکھائیں تو ہم بھی مان لینگے کہ ملک صرف امیروں کے لئے نہیں بنا۔ غریبوں کا بھی اس پر حق ہے ایک اور 6کالمی سرخی ہے اور یہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان ہے۔’’ قیام امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘۔ ایک زمانے میں اشتہارات آیا کرتے تھے ’’ یا اللہ ! یا رسول ! بے نظیر بے قصور‘‘ ہماری دانست میں شاہد خاقان عباسی ‘‘ بیست ودو‘‘ کے حساب سے پکڑے گئے ہیں ان کا کوئی قصور نہیں۔ یہ افغانستان میں بچہ سقہ کی حکومت کا واقعہ ہے ۔ کابل کے زندان سے قیدی بھاگ گیا۔ داروغہ نے پوچھا قیدی کا نمبر کیا تھا؟ سپاہیوں نے کہا ’’ بیست ودو‘‘ بچہ سقّہ نے کہا مسئلہ کوئی نہیں کسی کو بھی پکڑ کے لے آؤ 22 نمبر اس کو دیدو اور زندان میں ڈالو، تعداد پوری ہوجائیگی۔ہمارے معصوم وزیر اعظم کو نہیں پتہ کہ ہم نے چار بھارتی شہریوں کو پھانسی گھاٹ سے نکال کر دشمن کے حوالے کئے ہم نے بدترین مجرم ریمنڈ ڈیوس کو دشمن کے حوالے کیا۔ ہم نے کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس کو سزائے موت دینے میں کوتاہی کی اب یہ شخص بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ادھر ہالینڈ میں پیشیوں پہ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کبھی کلبھوشن کے رشتہ دار کو بلاتے ہیں۔ سمجھنے میں کچھ نہیں آتا کہ بھارت نے افضل گھورو کو کس طرح پھانسی دی، اجمل قصاب کو کس قانون کے تحت سزائے موت دی اب ہمارا ہر دشمن ہماری طرف سے امن کی خواہش کو ہماری کمزوری کیوں سمجھ رہا ہے؟ ایک اخبار نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بیان کو 5کالمی سرخی دی ہے ’’ لیڈری کا شوق نہیں ‘‘ بات بڑے پتے کی ہے مگر کہتے ہیں کہ پیران نمی پرند مریداں می پرانند‘‘ پیر خود ہوا کے دوش پر سوار نہیں ہوتے مرید اُن کو ہوا کے دوش پر سوار کرتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی لیڈری کا شوق نہیں تھا مریدوں کو انہیں لیڈر بنایا تاہم شکر ہے جو ناکامی 10سال بعد مقدر میں آنی تھی وہ پہلے سال ہی استقبال کو آئی۔’’ ایمان بچ گیا میرے مولا نے خیر کی‘‘ ان کی پارٹی کا مزار قریب ہی واقع ہے ویسے ایک پیر کا واقعہ بھی مشہور ہے کہتے ہیں پیر نے مرید کو ایک لاغر اور بیمار گدھا سواری کے لئے دیا۔ پہلے ہی پڑاؤ پر گدھا مرگیا۔ مرید اس کی قبر بنا کر مجاور کے روپ میں دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے لگا پیر کا وہاں سے گذر ہوا تو پیر نے مرید کے کان میں راز کی ایک بات کہی پیر نے کہا گدھا نجیب الطرفین تھا اس کے باپ کی قبر پر میرا بڑا بھائی بیٹھا ہوا ہے اس کی ماں کی قبر کا گدی نشین بلکہ ’’ گدھی نشین‘‘ میں خود ہوں اور اس کا مزار تیری روزی کیلئے مرجع خلائق بن گیا ہے ’’ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ‘‘ چیف جسٹس خاطر جمع رکھیں پاکستانی سیاست ایسے مزارات سے بھری پڑی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں