چترال ( محکم الدین ) ممتاز سکالر اور محقق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کہا ہے ۔ کہ چترال کو پاکستان سے ضم ہونے کے بعد ایک طرف باصلاحیت اور وژن والی قیادت نہیں ملی ، اور دوسری طرف علاقے کے لوگوں کی شرافت اور امن پسندی کا حکومتوں نے غلط فائدہ اُٹھایا ۔جس کی وجہ سے چترال مسائل کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔ آج صورت حال یہ ہے ۔ کہ چترال کا مستقبل روشن ہونے کی بجائے تاریکیوں میں ڈوب رہا ہے ۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے ۔ کہ چترال کے تمام لوگ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں ۔ اور وژن والی قیادت کو سپورٹ کریں ۔ جو بھنور میں پھنسی اس کشتی کو پار لگا سکے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز چترال پریس کلب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مہراکہ پروگرام میں’’چترال کے سلگتے مسائل ‘‘کے موضوع پر بطور مہمان مقرر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جس میں پروفیسر صاحب الدین ،نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ ، عنایت اللہ اسیر ، امیر اللہ اعزازی مہمانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سیاسی ، سماجی اور علمی حلقوں کے صاحب بصیرت افراد نے شرکت کی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ چترال 1969میں ریاست ختم ہونے کے موقع پر ضلع بنا اور آج بھی 14850مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یہ وسیع وعریض خطہ دو ضلع نہ بن سکا ۔ جب کہ اس کے مقابلے بہت کم رقبے کے حامل ضلعوں کو دو سے تین اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں صرف 185کلومیٹر پختہ سڑک ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے دیر کے آٹھ ہزار مربع کلومیٹر میں کوئی بھی قصبہ اور گاؤں پکی سڑک سے محروم نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال امتیازی سلوک کا شکار رہا ہے ۔ ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے ۔ ادنی بیماری کے علاج کیلئے اب بھی غریب لوگوں کو ملک کے دوسرے شہروں کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہسپتال میں جو مشینری موجود ہیں ۔ اُن کو بھی استعمال نہیں کیا جاتا ۔ جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال کا لیڈر آج بھی نہیں سمجھتا ۔ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ ویلج کونسل سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن تک سب انفرادی مسائل میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور سب کا کام دو تین لاکھ روپے کے ترقیاتی سکیمیں تقسیم کرنے تک محدود ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ کتنا افسوس کا مقام ہے ۔ کہ گولین ہائیڈل پاور پراجیکٹ 1987میں ایکنک میں منظور ہوا ۔ اور ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا ہے ۔ چترال تعلیمی بورڈ ابھی تک نہیں بنا ۔ اور سالانہ 15کروڑ روپے چترال سے تعلیم کی مد میں دوسرے اضلاع کو منتقل ہو رہے ہیں ۔ چترال کا اپنا تعلیمی بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ ٹاپ 20 ایوارڈ سے بھی طلبہ محروم ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ قیام پاکستان کے بعد کسی بھی چترالی سٹوڈنٹ کو سکالرشپ پر بیرون ملک نہیں بھیجا گیا ۔ انہوں نے کہا ۔ تعلیم کے ساتھ گہری محبت رکھنے والے چترال کے طلبہ کیلئے اب تک ٹیکنکل کالج ، کیڈٹ کالج کی سہولت نہیں ہے ۔ چترال کا جو بھی بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتاہے ۔ اُسے چترال سے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔