256

داد بیداد۔۔۔۔۔گمشدہ فائل۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

400سو اہم احکامات کی فائلیں دفتری ضابطہ کار کے گورکھہ دھندے کے اندر گم ہوچکی ہیں ایک خدشہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین نے ان فائلوں کو غائب کرادیا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہمدردوں نے ان فائلوں کو پردہ راز میں رکھا ہوا ہے الیکشن کے قریب تمام فائلیں برآمد کی جائیں گی اور ان احکامات کے ذریعے ووٹ سمیٹ لئے جائیں گے دفتری ضابطہ کار سے معمولی واقفیت رکھنے والے لوگ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پرویز خٹک کی حکومت میں سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے کتنا کا م ہوا اس کا پتہ نہیں ہے عملی طور پر سسٹم بربا دہوچکا ہے اس کی ذمہ داری تین طبقوں پر عائدہوتی ہے پہلاطبقہ وہ ہے جو ایکس کیڈر سے آکر دفتر ی نظام کے اہم عہدوں پر فائز ہوا ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ایڈیشنل چارج کے نام پر دو دو محکموں پر قابض ہے تیسرا طبقہ وہ ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے بڑوں کی نظروں میں معتوب ہو کراو ایس ڈی کے نام سے گھر پر بیٹھ کر تنخواہ لے رہا ہے سول بیورو کریسی کے 600اہم افیسروں میں اکثریت عوامی نیشنل پارٹی ،مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے اس وجہ سے تبدیلی اور سسٹم میں اصلاح کاایجنڈا درمیاں میں ادھورا رہ جانے کا خطرہ پیدا ہوتا ہو ا نظر آتا ہے دفتری نظام کے عدم تعاون کی دو موٹی موٹی مثالیں ہیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 2014میں چار ضلعوں کیلئے ریسکیو 1122کا اعلان کیا 2015میں اس پر کام ہونا چاہیے تھا پرویز الہیٰ ، شہباز شریف اور امیر حیدر خان ہوتی کو اس کام میں دو مہینے بھی نہیں لگے تھے دو مہینوں میں عارضی بلڈنگ میں کام شروع ہوتا تھا مستقل بلڈنگ کی تعمیر کا ٹینڈر ہوجاتا تھا اور سال کے اندر مستقل عمارت تیار ہوجاتی تھی یہ ہنگامی حالات میں کام کرنے والا ادارہ ہے اس کاقیام بھی ہنگامی بنیادوں پر ہوتا ہے مگر گذشتہ تین سالوں سے یہ کام چار محکموں کے درمیاں رسہ کشی کا شکار ہوکررہ گیا ہے ایک محکمے کا سربراہ مانتاہے تو دوسرے محکمے کا سربراہ اس میں رخنے ڈالتا ہے چاروں محکموں کے درمیاں ایک غیر تحریری معاہدہ ہوا ہے کہ موجودہ دورحکومت میں یہ کام نہیں ہوگااس کی دوسری مثال نئے اضلاع کا قیام ہے وزیر اعلیٰ نے کوہستان ، سوات اورچترال میں نئے اضلاع کے قیام کا اعلان کیا ہے دفتری ضابطہ کار نے ان اعلانات کو دفتری بھول بھلیوں میں الجھایا ہے2010ء میں اس وقت کی حکومت نے کالا ڈھاکہ کے وفاقی علاقے کو وفاق سے لے کر صوبے کا پچیسواں ضلع بنانے کا اعلان کیاتو 26دنوں میں قومی اسمبلی اورسینیٹ سے بل پاس کرکے صدارتی دستخطوں کے بعد وفاقی علاقہ صوبے کو دے دیا گیااگلے ایک ہفتے کے اندر اس کو تورغر کے نام سے نیا ضلع بناکر ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کو اس ضلعے کا اضافی چارج دے دیا گیا جودبہ کو ہیڈ کوارٹر بنایا گیا3مہینوں کے اندر بجٹ منظور ہوا نئے ضلع کا ڈپٹی کمشنر آیادفتر قائم ہوئے اور ضلعی ہیڈکوارٹر کے تمام دفاتر کھل گئے کیونکہ حکومت کو بیوروکریسی کا پوراتعاون حاصل تھا اپر کوہستان، اپر سوات اور اپر چترال کے اضلاع کا نوٹیفیکیشن عام دفتری ضابطہ کار کے مطابق دو گھنٹوں میں دستخط ہونا تھا قریبی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اضافی چارج دے دیا جاتا تونیا ضلع بن جاتا دوسرے دفاتر، بجٹ اور دیگر کام ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک ماہ کے اندر مکمل ہوسکتے تھے مگر افسر شاہی نے سوچا اس کو چکر میں ڈالنا چاہیے ہرضلعے کے لئے چارارب روپے کا بجٹ بناؤ ہر ضلعے کے لئے چار سو آسامیاں پیدا کرو ڈیڑھ سو نئی گاڑیوں کاانتظام کرو اس میں ایک سو ایک ifs اور ایک سو ایک buts ڈال دو کام کو اتنا پیچیدہ اور مشکل بناؤ کہ ضلع بنانے کا اعلان کرنے والے سر جوڑ کربیٹھ جائیں اور اپنے اعلان پر پچھتانے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گمشدہ فائل کی کہانی ہر دفتر کی کہانی ہے ہر فائل کسی نہ کسی میز پر گذشتہ دو سالوں سے رُکی ہوئی ہے یہ فائل ہسپتالوں میں ہونے والی سہولیات کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے تعلیمی اداروں میں بہتری کیلئے بھی ہوسکتی ہے کسی غریب کی داد رسی کے کیلئے بھی ہوسکتی ہے اس فائل پر وزیر اعظم کا ٹور نوٹ ہے وزیر اعلیٰ کے احکامات بھی ہیں جن کو دفتری زبان میں ڈائریکٹیوز کہا جاتا ہے عمومََا وزیر اعلٰی کے احکامات پر دو گھنٹوں میں عمل درآمد ہوسکتا ہے مگر بیوروکریسی اگر صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے احکامات پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہ ہو تو معمولی کام دوسالوں تک فائلوں میں بندرہتا ہے اور فائل دفتری نظام میں گم ہوجاتی ہے اس وقت سول سیکرٹریٹ پشاور اور ملحقہ محکموں کی صورتحال یہ ہے کہ 11اہم محکموں کا ایڈیشنل چارج کسی دوسرے محکمے کے
سیکرٹری کے پاس ہے18محکموں میں اہم عہدوں پر یا تو ایکس کیڈر کوبٹھایا گیا ہے یا جونئیر افیسر کو سینئر پوسٹ پر رکھا گیا ہے39تربیت یافتہ سینئر افیسروں کو او ایس ڈی کرکے گھر بٹھایا گیا ہے افیسروں کی آپس میں گروپ بندی ہے اس گروپ بندی کی وجہ سے دفتری نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے سچ پوچھئے تو یہ سب کچھ تبدیلی کے ایجنڈے کو روکنے کیلئے ہورہاہے سسٹم کی اصلاح کو روکنے کیلئے ہورہا ہے اور عمران کے وژن کو ناکام ثابت کرنے کے لئے ہورہا ہے پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں پاک آرمی ،سول سروس اور پولیس سروس کے ریٹائرڈ افسروں کی کمی نہیں جنرل (ر)افتخار حسین شاہ یا رستم شاہ مہمند کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں تاکہ حکومت کے پاس کام کے جو 6 مہینے رہتے ہیں یہ چھ مہینے ضائع نہ ہوں اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کی جھلک زمین کے اوپر عوام کو نظر آئے گمشدہ فائلوں کاسراخ مل جائے اور غریبوں کی دادرسی ہو ورنہ فیض نے ہمارے دفتری نظام کا خاکہ یوں کھینچا ہے
بے داد گروں کی بستی ہے یاں دا د کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے نادان فریاد جو در در جاتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں