248

داد بیداد۔۔۔۔۔خوشامد کا زہر۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

خلیل جبران کہتا ہے ’’ دشمن کو زہر کی پڑیا نہ دو ، خوشامد کا زہر کافی ہے‘‘ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے زوال میں خوشامد کے زہر کا حصہ روز بروز نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے یہ وہی زہر ہے جو شہنشاہ ایران آریا مہر رضا شاہ پہلوی کو دیا گیا تھا انقلاب اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور خوشامدی ٹولہ اس کو باور کرا رہا تھا کہ یہ انقلاب کی دستک نہیں تمہاری سلطنت اگلی سات نسلوں تک چلے گی گذشتہ 10دنوں سے سعودی عرب ، امریکہ اور لندن کی گھڑیاں ایک ہی وقت بتا رہی ہیں وقت یہ ہے کہ نواز شریف کا وقت ختم ہوچکا ہے اب ان کو گھڑیال کی طرف دیکھنا چاہیے اوراپنی گھڑی درست کرلینی چاہیے مگر سیانوں نے کہا ہے کہ زوال مقدرمیں ہو تو پہلے آنکھیں بند ہوجاتی ہیں پھر دل و دماغ پر مہر لگ جاتی ہے کان آخر تک ساتھ دیتے ہیں مگر ان کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ خوشامد کے سوا کچھ بھی نہیں سن سکتے جون 2013میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف کی حالت یونانیوں کے ہیروجیسی ہوگئی تھی قدیم یونان کے سورما جنگیں لڑ کر فتحمندی کے ساتھ واپس آجاتے تو پورا شہر استقبا ل کو جاتامگر ہیرو کے ساتھ ایک شخص کو لگا دیا جاتا وہ ہر قدم پر ہیروکو بتاتا ’’ اگرچہ تم فتحمند ہوکر آئے ہوپورا شہر تیرا استقبال کر رہا ہے لوگوں نے تجھے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے مگر یا د رکھو تم انسان ہو اور انسان فانی ہے‘‘ قدیم ایتھنز اور سپارٹا کے ہیرو کے لئے بولے جانے والے یہ جملے آج تک تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں مگر وہ ہیرو ہمیں نہیں ملتے جاتی عمرہ کے رائے ونڈ فارم اوراسلام آباد کے وزیر اعظم سکرٹریٹ ، پرائم منسٹر ہاؤس اور پارلیمنٹ کی دیواروں سے کان لگاکر سرگوشیاں سننے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کو خوشامدی ٹولے کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا، ورنہ زرداری کی طرح اپنی آئینی مدت پوری کرنا مشکل نہیں تھاخوشامدی ٹولے نے سابق وزیر اعظم کو تین بے بنیاد باتوں کا باور کرایا تھا پہلی بے بنیاد بات یہ تھی کہ تم بھٹو سے بڑے لیڈر ہو ، دوسری بے بنیاد بات یہ تھی کہ بھٹو کا داما د اس کی سیاسی وراثت کا حقدار ہوسکتا ہے توتمہارا داماد کیوں نہیں ہوسکتا؟ تیسری بے بنیاد بات یہ تھی کہ بھٹو کی بیٹی دو مرتبہ وزیر اعظم بن گئی تو تمہاری بیٹی کیو ں نہیں بن سکتی؟ تینوں باتوں کی کوئی بنیاد نہیں تھی اگرسابق وزیر اعظم کان کے کچے اور خوشامد کے رسیا نہ ہوتے تو ایک کان سے سن کردوسرے کان سے اڑا دیتے ان کے گرد خوشامدیوں کا ایک ٹولہ نہیں تھا، دو ٹولے تھے دونوں کی الگ الگ ڈیوٹیاں تھیں دوسرا ٹولہ صبح و شام ان کے کان بھرتا رہتا تھا کہ ملک کا کوئی ادارہ تمہاری راہ میں حائل نہیں ہوسکتا کوئی قانون تمہاری خواہش سے بڑھ کر طاقتور نہیں ہے تم جو چاہوگے قومی سلامتی کے ادارے تمہارے سامنے بے بس نظرآئینگے عدالتوں کی راہداریوں میں تمہارے نام کا ڈنکا بجتا ہے جی ۱یچ کیوکی گھڑیاں تمہاری گھڑی دیکھ کر اپنی سوئیاں درست کرتی ہیں تم اتنے بڑے آدمی بن چکے ہو کہ سابق آرمی چیف پر مقدمہ چلا سکتے ہو، تمہاری اتنی طاقت ہے کہ تم عدالتوں کو زیرو زبر کرسکتے ہو قانون کو موم کی ناک بنا سکتے ہو ، ایک خوشامدی ہر روز کہتا تھا کہ فلک نے آج تک تمہارے قد کا لیڈر نہیں دیکھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم ان باتوں کا باور کرلیا کرتے تھے اگر کسی طرف سے ’’حق کی آواز‘‘ آجاتی تو سابق وزیر اعظم بہت ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص کو دفع کرو یہ شخص ہمارا خیر خواہ نہیں لگتاآدمی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ اس کو سچ بولنے والا بدخواہ اور جھوٹ بولنے والا خیر خواہ لگتا ہے ایسے مواقع پر خوشامدی ٹولے کے لئے انگریزی میں’’ کچن کیبنیٹ ‘‘ کی ترکیب استعمال ہوتی ہے مگر یہ ٹولہ کچن کیبنیٹ سے بڑا تھا اس میں سیاست دان، بیورو کریسی کے کل پُرزے،اخبار نویس اور سفارت کار بھی شامل تھے ان لوگوں نے سابق وزیر اعظم کو باور کرایا تھا کہ تم’’ مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر‘‘ سے بڑے شہنشاہ بن چکے ہو تمہاری مرضی ہے بیٹے کو ولی عہد نامزد کرو،بیٹی کو نامزد کرو یا داماد کو ولی عہد بناؤبھٹو نے بیٹی کو ولی عہدبنایا تھا ان کی بیگم نے داماد کے سر پر ولی عہدی تاج رکھ دیا پوچھنے والاکوئی نہیں تھاسابق وزیر اعظم نے خوشامدی سے یہ نہیں پوچھا کہ اب اُن کی پارٹی کے پاس چار قبروں کے سوا کیا رہ گیا ہے؟داماد کو ولی عہد بنانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے انہوں نے اپنے کسی خوشامدی سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر کے زمانے کو گذرے ہوئے کتنے سو سال بیت گئے 1526 ء اور 2018ء میں زمانے کا کتنا فاصلہ ہے؟500سال بعد جمہوریت کہاں پہنچی ہے؟ سیاسی جماعت کس چڑیا کا نام ہے ؟پارلیمنٹ کس کھیت کی مولی کو کہتے ہیں؟آئین اور قانون کس چیز کا نام ہے؟خوشامد کی خرابی یہ ہے کہ یہ چیز پہلے آدمی کو بینائی سے محروم کردیتی ہے پھر دل اور دماغ کو معذور کرکے آدمی کو سہارے کا محتاج بنا دیتی ہے سابق وزیر اعظم کو اب بھی باور نہیں آتا کہ مغل اعظم کا زمانہ 500سال پہلے گزرچکا ہے اب وہ زمانہ واپس نہیں آئے گاخوشامدیوں کے نرغے میں وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ میری سیاسی جماعت بھی ہے میری پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے میری پارٹی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو میری بیٹی اورمیرے داماد کی جگہ لے سکتے ہیں خوشامد یوں نے یہ سب کچھ اسے بھلا دیا ہے خلیل جبران نے درست کہا خوشامد کی زہر سقراط کے پیالے سے زیادہ جان لیوا ہوتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں