199

صدائے بازگشت…پاکستان زندہ باد۔۔۔۔.تحریر: عنایت اللہ اسیر

چترال کے باشندوں نے 1943ء میں ہی چاند ستارے کا نشان ریاستی جھنڈے کے ساتھ شاہی قلعے پر لہراکر پاکستان کو دل سے قبول کرکے اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ جبکہ پاکستان بنا ہی نہیں تھا۔ وہ نشان اب بھی شاہی قلعے پر لگا ہوا ہے مگر ہماری یک طرفہ محبت اخلاص امن شرافت اور پاکستان کے لئے والہانہ قربانی دینے کی جذبات کا جو صلہ ہمیں ملا وہ سب کے سامنے ہے۔ 1948ء میں چترال سکاوٹس اور چترال بارڈر پولیس کے جوانوں نے میجر مطاع الملک اور شہزادہ برہان الدین کی قیادت میں کشمیر کے محاذ پر ہندوستان کے غاصبانہ اور مکارانہ قبضے کے خلاف جس بے دردی ، بے جگری اور بہادری سے لڑے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اگر جنگ بندی نہ کی جاتی تو ہندوستان سے کشمیر کا واحد راستہ بھی کاٹ کر پورے کشمیر کو پاکستان کا بابضاطبہ حصہ بنا کر دم لیتے۔ مگر جنگ بندی کی وجہ سے آزاد کشمیر کا یہ حصہ ہندؤں کے قبضے سے چھڑوایا گیا ورنہ مقبوضہ کشمیر کا کوئی متنازعہ علاقہ ہندوستان کے قبضے میں نہ ہوتا۔ اس کامیاب جنگ کو بے سروسامانی کی حالت میں جیت کر واپس آتے ہوئے جو سلوک چترال کے جوانوں اور افسران سے روا رکھا گیا اور ان کامیاب جنگ جو کمانڈروں کو گلگت سے گرفتار کرکے پشاور جیل میں سالوں رکھا گیا اور ان باڈی گارڈ کی سپاہیوں کو انعامات ، تمغے اور بخشش دینے کی بجائے خالی ہاتھ ان کے گھروں کو بھیجا گیا حالانکہ دیر کے تیار خور سپاہیوں کو بخشش دیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام ریاستوں کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور صوبہ سرحد کے بہت سے علاقوں میں ووٹ بھی کردیا گیا مگر چترال جیسے دورافتادہ علاقے میں فرد واحد بھی ایسا نہیں تھا جسے پاکستان سے الحاق کا مخالف کیا جائے ۔ 1895سے 1924ء تک بیس سال وادی چترال دو ریاستوں میں تقسیم رہا ، ریاست چترال کے والی حکمران اعلیٰ حضرت سر شجاع الملک اور ریاست مستوج کے ولی حکمران مہترجو راجہ بہادر خان رہے ۔ پاکستان سے باضابطہ اعلان کے بعد چترال کو پھر سے دو ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ، ضلع چترال ڈپٹی کمشنر شہزادہ شہاب الدین اور ضلع مستوج کا پہلا ڈپٹی کمشنرشہزادہ اسدالرحمن مقرر ہوئے ۔ عجیب اتفاق اور حقیقت ہے کہ چترال کو پھر بھی والیاں ریاست کی نگرانی اور مکمل اختیار میں آزاد ریاست ہی کے طور پر اس کا اپنا وزیر اعظم ، اپنا کمانڈر انچیف ہوا کرتا تھا ۔ پہلا وزیر اعظم جو آخر تک رہے ، مہتر جو دلارم خان اور پہلا کمانڈر انچیف شہزادہ برہان الدین مقرر ہوئے اور چترال دو اضلاع ، چھ گورنریوں اور تحصیلوں میں انتظامی تقسیم رہا۔ ریاست چترال کے تین فل تحصیلیں دروش، چترال اور گرم چشمہ لوٹ کوہ تھے جن کا ڈی۔ سی شہزادہ شہاب الدین اور ضلع مستوج کی تین تحصیلیں مستوج ، تورکھو اور موڑکھو جن کا ڈی۔ سی شہزادہ اسد الرحمن تھے ۔ ہر تحصیل میں ایک اے۔ سی مقرر تھے ، دونوں الگ الگ اضلاع کو ایک پولیٹکل ایجنٹ نگرانی کرتا تھا ۔ 1947سے 1969چترال کے ضلع بننے تک یہی پوزیشن رہا مگر 1969ء میں اٹھ ہزار پا نچ سو کلومیٹر چترال اور سات ہزار کلومیٹر مستوج کو ایک ضلع قرار دے کر چترال کے چھ گورنریوں اور چھ تحصیلو ں کو سب تحصیل قرار دے کر چترال کے ساتھ بے جا ظلم اور ذیادتی کیا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ چترال کے باشندوں نے چترال کو قانونی ضلع بنانے کی تحریک چلائی اور ضلع بننے پر خوشیاں منائی اور مٹھائی تقسیم ہوئے جس کا بدلہ دو ضلعوں کو ایک ضلع بناکر دیا گیا جس سے اس وقت کے ڈی۔ سی کو اے سی اور اے سی صاحبان کو ای اے سی کی شکل میں سزا دے دی گئی حالانکہ دیر کے نواب کو گرفتار کرکے دیر کو ضلع بنایا گیا ، دیر کو چار صوبائی اور دو قومی اسمبلی کی سیٹیں دے دی گئییں ، دیر کے تمام سڑکوں کو پختہ کیا گیا ۔ آج دیر میں پختہ سڑکوں کی لمبائی آٹھ ہزار کلومیٹر ہے اور دیر کا رقبہ آٹھ ہزار کلومیٹر اور چترال کاچودہ ہزار ہے اور یہاں کی پختہ سڑکوں کی لمبائی 183کلومیٹر ہے۔ 1947سے 2004ء تک لواری ٹنل کے قابل عمل منصوبے کی منصوبہ نہ کی گئی حالا نکہ ملاکنڈ کی پہاڑی کے اندر سے تین کلومیٹر کے سات سرنگین نکالے گئے ۔ ہمارے ساتھ ایجنسی سے ضلعے کی حیثیت حاصل کرنے والے ضلع سوات کو چار اضلاع سوات ، شانگلہ ، بونیر اور کوہستان ، ضلع دیر کو اپر دیر اور لویر دیر کے دو اضلاع میں انتظامی تقسیم کرکے لوگوں کو سہولیات ، تعمیری، صحت اور تعلیم کے میدان میں دے گئے مگر چترال کے دو اضلاع کو ملاکر ایک ضلع بنایا گیا کیونکہ ہم شریف، پرامن ، مہذب ، قانون پسند اور پاکستان سے محبت رکھتے ہیں۔ دیر میں چکدرہ بورڈ ، یونیورسٹی ، ستر کی دہائی میں بنائے گئے ۔ چترال کے چار ہزار طلباء کے لئے اتنے دور افتادہ اور ستر سال تک ملک سے زمینی بارہ مہینہ زمینی راستہ نہ ہونے کے باوجود ایک انٹر اور یونیورسٹی نہیں دی گئی اور طلباء یو ایف ایم کیسز کی پیروی کے لئے اپنے والدین کے ہمراہ یونیورسٹی جانے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم پاکستان سے محبت رکھتے ہیں۔ طلبا وطالبات چترال میں ان کا یونیورسٹی ،بورڈ دیر اور مردان میں ابھی تک حالانکہ پانچ سو طلباء یونیورسٹی کے چترال کیمپس میں اور شرینگل میں دو سو طلباء لے دے کے بھی چترال یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے مگر ابھی تک اس کو یونیورسٹی بورڈ کے طور پر سہولت نہیں ملی ہے۔
چترال کے واحد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کسی ایک شعبے کا بھی اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود نہیں، سی ٹی اسکین، ڈائلیسز ، ایکو ، ایم آر آئی ، نیورو اور ہارٹ کے مریضوں کو پشاور سے باہر لے جایاجاتا ہے ۔ اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں ، کوئی انجینئیرنگ یونیورسٹی، ٹکنیکل و میڈیکل کالج کا وجود اور کیڈٹ کالج کی فکر تک ہمارے حکمرانوں کو قائم کرنے کی نہیں ہے کیونکہ ہم شریف پاکستان اور امن پسند ہیں۔ چترال اپنی جعرافیائی حیثیت میں کراچی، چمن اور خیبر پاس کی طرح ہے۔ ا نٹرنیشنل تجارت سیاحت کے طور پرافغانستان، چمن اور تاجکستان اور سنٹرل ایشیاء کے مختلف ممالک تک مختصر تریں اور آسان ترین سال بھر کی زمینی راستہ فراہم کرتا ہے۔ مگر چترال میں کاربار کرنے والے افغانی اور مہاجر بھائیوں کو رہائش ، کاربار اور محنت مزدوری کے تمام مراعات اور سہولیات موجود ہیں مگر جو کروڑوں روپے وہ ضلع چترال میں محنت مزدوری سے کماتے ہیں، ان کو چترال کے دروش ، گرم چشمہ ، مستوج، ایون اور ارندو کے قریبی بازار وں سے جائز اور قانونی تجارت کا وہ مال جن کی افغانسنتان اور دیگرممالک میں لے جانے پر کسی بارڈر پر پابندی نہیں ہے اور پرمٹ لے کر ٹیکسز ادا کرکے پشاور اور دیگر علاقوں سے جائز تجارت کی اجازت ہے مگر چترال کے بازار سے ان افغانوں کاروباری حضرات اور مزدوروں کو چترال بازار سے فٹ بال، کنگی، پلاسٹک، پائپ، شیشے ، میخ، سینی ٹیشن کے سامان عمارتی سامان وغیرہ خریدکر لے جانے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی کرنسی نقد افغانستان لے کر جلا ل آباد سے خریداری ہوتی ہے اور کروڑوں کا سرمایہ افغانستان نقدی کی صورت میں منتقل ہوتا ہے اور چترال بازار میں سامان خریدنا حرام ہے جس سے ہمارے بازار ماند پڑجانے کے ساتھ ہمارے ملک کو زرمبادلہ کا سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ چترال جعرافیائی اہمیت سے پاک وطن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ 1993ء کا سروے شدہ چترال ، گرم چشمہ، اشکاشم ہائی وے پراجیکٹ کا پی۔سی ون تیار منصوبہ این ایچ اے کی فائلوں میں سڑچکا ہے اور اب دوبارہ سروے کی اشد ضرورت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ 23سالوں میں اس سڑک کی لاگت میں سو فیصد اضافہ ہوئی ہے۔ لواری ٹنل کے ساتھ ساتھ چترال سنٹرل ایشیاء راستے کی تعمیر کی اشد ضرور ت ہے تاکہ تیس ارب روپے کی ٹنل پر اخراجات کی واپسی کا ذریعہ بھی پید اکیا جاسکے۔ چترال گرم چشمہ اشکاشم ہائی وے کو فی الحال چین افغانستان اور پاکستان معاہدے سے تعمیر کی امید پیدا ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان کو سی پیک کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ قندہار سے گوادر کو راستہ پاکستان دے دے اور چترال گرم چشمہ سے بدخشان تاجکستان کا راستہ افغانستان سے لے کر سنٹرل ایشیاء کے ممالک کی مدد سے سے ایک اور سی پیک سنٹرل ایشیاء اکنامک کوریڈور تعمیر کیا جائے ۔ چترال مستوج یارخون واخان خوروگ ریلوے ٹریک اور شاہراہ کی تعمیر کے لئے بھی این ایچ اے منصوبہ بندی کرے ۔ تاکہ کاشغر، چین ، گلگت ، خنجراب تک افغانستان کو راستہ دیا جاسکے۔ چترال کے اعلان شدہ ضلعے کو ہرحال میں بحال کرکے انتظامی افسران کا تقررکیا جائے اور چترال کے وسیع وعریض مشکل ترین گزرگاہوں پر مشتمل چودہ ہزار 850کلومیٹر پر پھیلے ہوئے علاقے کو اس کی پسماندگی اور دورافتادگی کے پیش نظر اس کے دو صوبائی سیٹوں کو کم نہ کیا جائے بلکہ چترال کی کالاش منفرد تاریخ ، کالاش ثقافت اور مذہبی اقدار کے حامل برادری کو بھی صوبائی اور قومی اسمبلی میں الگ نمائندگی دے کر اس تاریخی indegenous کلچر کی حفاظت کا بھی فکر کرے ۔ الیکشن کمیشن اس بات کا لحاظ رکھے کہ چترال کے باشندے 50ہزار سے ذیادہ کراچی، بیس ہزار لاہور، پچاس ہزار سے ذیادہ پشاور اور کم وبیش 29ہزار ملک کے دیگر شہروں میں محنت مزدوری کے لئے آتے جاتے ہیں اور پھر بیرون ملک چترالیوں کی تعداد کو ملایا جائے تو سب ملاکر تین لاکھ سے ذیادہ افراد ان چترال ڈومیسائل ہولڈروں کو انتخابی فہرست میں شامل ہی نہ کیا گیا ۔ ان سب کا خیال رکھا جائے تو پھر چترال کے سب باشندوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے ذیادہ ہوسکتی ہے ۔ لہٰذا چترال کے محب وطن باشندوں کو دو صوبائی سیٹوں سے محروم نہ کیا جائے اور چترال کو ہی ایک قومی اسمبلی کا حلقہ قرار دے کر ہمارے کم کئے ہوئے صوبائی سیٹ کو بحال کیا جائے کیونکہ ہم کٹر پاکستانی، قانون پسند، پرامن ، شریف اور مہذب شہری ہیں ، مراعات میں اضافہ کر نے کی بجائے حاصل مراعات کو بھی ختم کرنے سے مایوسیاں جنم لیتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں