229

تعلیمی بورڈز کی خودمختاری اور اصلاحات۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

امتحانی نظام میں اصلاحات کے لئے محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم خیبرپختونخواکی جانب سے تیارکردہ ایک مجوزہ بل عنقریب خیبرپختونخوااسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیاجارہاہے،جس کامقاصد بظاہرتوامتحانی نظام میں بہتری لاکر تعلیمی معیار بہتر بناناہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ مجوزہ بل کے خدوخال میں امتحانی نظام میں بہتر ی یااصلاحات لاناتوکجاامتحانات سے متعلق ایک لفظ تک درج نہیں ہے جس سے پائے جانیوالے اس تاثرکوتقویت ملتی ہے کہ مجوزہ بل کامسودہ تیارکرنے کامقصد تعلیمی معیاریاامتحانی نظام میں کوئی بہتری لانانہیں بلکہ اس کی آڑمیں تعلیمی بورڈز کی خودمختاری ختم کرکے بورڈزکے تحت لئے جانے والے امتحانات کے نتائج میں اپنے پیاروں کو نوازنے کی غرض سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج نکانے کے لئے دیگر سرکاری محکموں کی طرح تعلیمی بورڈزکوبھی اشرافیہ کے ماتحت بنانااورانہیں ان کابلاشرکت غیر مالک بنانامقصود ہے، صوبے کے مختلف علاقوں میں ثانوی واعلیٰ ثانوی تعلیمی سطح پرقائم کئے گئے تعلیمی بورڈز صوبائی اسمبلی سے منظورشدہ تعلیمی ایکٹ 1995ء کے تحت مالی اورانتظامی خودمختاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں،خیبرپختونخوامیں پہلے ایک تعلیمی بورڈپشاورمیں قائم تھاجوپورے صوبے کے امتحانی نظام کو کنٹرول کرتاتھاتاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لئیاسی ایکٹ کے تحت ابتداء میں ایبٹ آباد،بنوں اور سوات میں مزید تین جبکہ 2000میں ڈیرہ اسماعیل خان،مالاکنڈمردا ن اورکوہاٹ میں چار بورڈزقائم کئے گئے جن کی کنٹرولنگ اتھارٹی 2005تک گورنرکے پاس تھی اور چونکہ گورنر وفاق کانمائندہ ہوتاہے اس لئے ان کی تعلیمی بورڈز کے معاملات میں بے جامداخلت نہ ہونے کے برابر تھی جس کے پیش نظر ان بورڈز کی کارکردگی مثالی تھی لیکن 2005میں اس وقت صوبے میں قائم متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اسمبلی کے ذریعے تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی کے تمام اختیارات گورنرسے لیکر وزیراعلیٰ کو دیئے اور چونکہ وزیراعلیٰ کاعہدہ سیاسی ہوتاہے اور ان کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیںیوں اس غیرضروری اقدام سے تعلیمی بورڈزکے معاملات میں سیاسی مداخلت کابراہ راست آغاز ہوگیا،سیاسی مداخلت کے نتیجے میں پیسوں کے بل بوتے اور سفارش پر مخصوص ذہنیت کی حامل مافیاکو بورڈز میں ڈیپوٹیشن پر آنے کے سنہرے مواقع ملے،ایک طرف تو تعلیمی بورڈذمیں سیاسی مداخلت کی وجہ سے بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کے قصے زبان زدعام ہیں تو دوسری جانب ایک سیکشن آفیسر کی ایماء پر مجوزہ بل جس کاڈرافٹ ایک این جی اوکے کنسلٹنٹ سے ڈرافٹ تیارکی گئی ہے کومنظوری کے لئے ایسے اسمبلی کے سامنے لایاجارہاہے جس کی پارلیمانی مدت چند ماہ بعد ختم ہورہی ہے،اگرچہ یہ امر قابل ستائش ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ صوبائی حکومت تعلیم اور صحت سمیت دیگر محکموں کو خودمختاربنانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے کیونکہ اداروں کی کاکردگی تب تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک وہ مالی اورانتظامی لحاظ سے خود مختارنہیں ہوتے اب اگرذکرہوتعلیمی بورڈزکی خودمختاری کاتونافذالعمل ایکٹ 1995کے تحت چلنے والے بورڈزاس حوالے سے مکمل طورپر خودمختارہیں اوراسی بناء پر یہ حکومت کے خزانے پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ منافع بخش ہیں اوراگر ان بورڈزکی خودمختاری کو چھیڑاگیاتوان کے نتائج بھی ان سرکاری سکولوں جیسے ہوں گے جوسالانہ اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کرنے کے باوجود حوصلہ افزاء نتائج دینے سے قاصرہیں البتہ بورڈزمیں اگرکوئی خرابی ہے تو وہ چیئرمین،سیکرٹری،کنٹولرامتحانات،آڈٹ آفیسراور سیکریسی آفیسر جیسے عہدوں پرڈیپوٹیشن پر دواورتین سالوں کے لئے سکولوں اور کالجز سے آنے والے افسران کی تعیناتی ہے اس ضمن میں دیکھاجائے تواس وقت بھی تعلیمی بورڈزمیں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے ہیں جوکہ میرٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے اور ٹیکنیکل بورڈکے ایک سابق چیئرمین ناصر علی خان نے بورڈزمیں چیئرمینوں کی بغیرمیرٹ کے ڈیپوٹیشن پر حالیہ تعیناتی عدالت میں چیلنج کیاہواہے،تعلیمی بورڈزمیں ڈیپورٹیشن پر آنے والے افسران کے عجب کرپشن کی غضب کہانیاں زبان زد عام ہیں،بورڈمیں تعینات نچلے درجے کے ملازمین اگر مالی بے ضابطگی یا کسی اور بے قاعدگی کے مرتکب پاتے ہیں توانہیں بروقت سزائیں دی جاتی ہیں اور ہونابھی یہی چاہئے مگر دوسری جانب ڈیپورٹیشن پر آنے والوں کی کوئی غلطی نہیں پکڑی جاتی بلکہ الزامات کی زد میں آنے والوں کو پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین جنہیں اربوں روپے کرپشن کے الزامات میں جیل یاتراکرنے کے بعد چیئرمین ایچ ای سی سندھ مقرر کیاگیا کی طرح دیگر بورڈزمیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے گویاانہیں انعام سے نوازاجاتاہے، روزمرہ معاملات اورسرکاری امورمیں غلطیاں سدھارنا، خامیوں پر قابوپانے اورکمزوریوں کو دورکرکے بہتری لانے کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہے جبکہ والدین اور ماہرین تعلیم بھی اصلاحات کے ذریعے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں مگرایسے اصلاحات انہیں کسی طورقابل قبول نہیں ہوں گے جو بہتری کی آڑتعلیمی بورڈز کے اندر اہم ترین انتظامی عہدوں پر ڈیپورٹیشن پر آنے والے افسران کوتحفظ دینے کے سواء کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور ان اصلاحات کے نفاذسے محض ذاتی مفادات کے لئے بورڈآف گورنرزتشکیل پانا ہوکیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بورڈآف گورنرزایک طاقتور فورم ہوتاہے جس کے پاس بورڈز کے وسیع انتظامی اور مالی اختیارات ہوتے ہیں اوربورڈآف گورنرزکوقابو کئے بغیر بیوروکریسی کے خواہشات کی تکمیل نہیں ہوسکتی شائد یہی وجہ ہے کہ صوبائی بیوروکریسی کے چند ناعاقبت اندیش افسران ان تعلیمی بورڈز کی مالی اور انتظامی خومختاری ختم کرانے کے درپے ہیں جس کی واضح دلیل امتحانی نظام میں اصلاحات کے لئے مجوزہ بل ہے لیکن خدارااداروں کو تباہ مت کیجئے کیونکہ اداروں کااپنی ذات میں آزاداورخودمختارہوناہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں