243

چترال کی سیاسی قیادت ای پیچ پر۔۔۔۔کریم اللہ

منگل 30جنوری 2018ء کو پشاور کے شاہی مہمان خانہ میں چترال کے سارے منتخب نمائندے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔مقصد سوشل میڈیا پر چلنے والی وہ خبر تھی جس میں چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کو ختم کرنے کی غیر مصدقہ خبرین محو گردش تھیں ، اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کے لئے چیرمین سی سی ڈی این جناب سرتاج احمد خان کی کال پر ایم این اے چترال جناب افتخار الدین ، ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ، ایم پی اے سردار حسین ، سلیم خان ،فوزیہ بی بی ،تجاریونین ،صحافی اور قانونی ماہرین کی ایک بیٹھ تھی۔ جس میں پچھلے سال منعقد ہونے والے متنازعہ مردم شماری کے نتائج اور اس مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں زیر بحث آئی ۔ اس کے علاوہ گولین گول پاور ہاو س سے چترال کے کونے کونے تک سستے داموں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالہ سے بات ہوئی ۔ پشاور میں منعقدہ اس آل پارٹیز کانفرنس کی اہمیت سے انکا ر ممکن نہیں ، سوشل میڈیا ئی دانشور اس پر بھی کیڑے نکالنے میں مصروف ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ سیاست دان اپنی کرسی خطر ہ میں محسوس کرتے ہوئے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے وگرنہ کسی قومی مسئلے پر یہ ایک پیچ میں نہیں آتے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر محیط صوبہ نما ضلع چترال میں دو ایم پی ایز (موجودہ حالات میں تین ) اور ایک ایم این اے کے ہوتے ہوئے ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں اگر اپر دیر کو بھی چترال کے ساتھ ضم کرکے حلقہ بنایا گیا تو چترال کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حلقہ بندیوں کا معاملہ چترال کی پسماندگی اور قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کے لحاظ سے انتہائی اہمت کے حامل ہے ۔ موجودہ عوامی نمائندگان کا اس حوالے سے یک زبان ہونا نیک شگون ہے ، اور اس موقع کو فراہم کرنے میں کلیدی کردار اداکرنے والے سابق تحصیل ناظم اور موجودہ چیرمین سی سی ڈی این وچترال چیمبر آف کامرس جناب سرتاج احمد خان خراج تحسین کے مستحق ۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ حلقہ بندیاں شروع ہونے سے قبل ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کرکے ایک یادداشت پیش کی جائے گی جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ چترال ایک ضلع نہیں بلکہ ریاست ہے جو اپنی منفرد جغرافیائی محل وقوع ، ثقافت اور دفاعی پوزیشن کی وجہ سے نمایاں مقام کے حامل ہے یہی وجہ ہے کہ چترال کی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے دوسرے اضلاع کے برعکس یہاں کے معاملات کو نمٹانا ہوگا، کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اگر حکومت اورا لیکشن کمیشن نے چترال کے دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں برقرار نہیں رکھی تو اگلے عام انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی سی ڈی این کے چیرمین سرتاج احمد خان نے یہ بھی کہا کہ چونکہ چترال موسمی تغیرات سے بری طرح متاثر ہے لہذا گولین گول بجلی گھر سے چترال کے کونے کونے تک ایک روپے پچاس پیسہ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے ، جس پر متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کے فروری میں دورہ چترال کے موقع پر چترال کے دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو بحال رکھنے اور سستے داموں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کامطالبہ کیا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں