294

داد بیداد۔۔۔۔پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

1970ء کے عشرے میں پولیس کے حوالے سے ایک شعر زبان زدِ عام ہوا تھایہاں تک کہ اس کو باقاعدہ نعرہ بنایا گیا شعر یوں تھا
پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
کریں دل سے اسکی مدد آ پ بھی
عدالتوں کو شکوہ ہے کہ پولیس جرائم کی تفتیش اور چالان میں مستعدی نہیں دکھائی ، عوام کو شکوہ ہے کہ پولیس بالادست اور امیر طبقے کی مرضی پر
چلتی ہے۔ پولیس کو شکایت ہے کہ حکومت ہماری فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھتی۔گذشتہ روز پولیس کے حوالے سے دو باتیں منظر عام پر آئیں دونوں حیران کن ہیں پہلی بات یہ ہے کہ قصور میں جنسی تشدد کے بعد قتل ہونے والی سات سالہ بچی زینب کے مقدمے میں پولیس نے چالان پیش کرنے کے لئے 3ماہ کی مہلت مانگی پولیس کا موقف یہ ہے کہ قانون میں 90دن دے دیئے گئے ہیں دوسرے بات یہ ہے
کہ ڈی آئی خان کے ایک شہری نے سوشل میڈیا میں خپل پولیس کے صفحے پر پولیس کو ملنے والے راشن منی(Ration money)یا میسنگ الاؤنس کا ذکر کیا ہے اور ہم سب کو شرمندہ کردیا ہے شہری نے لکھا ہے کہ پولیس کے کانسٹیبل سے لیکر انسپکٹر تک سب کو ماہانہ 680روپے راشن منی یا میسنگ الاؤنس ملتا ہے اس کو دنوں پر تقسیم کیا جائے تو روزانہ 22روپے دیئے جاتے ہیں اگر دن کے تین اوقات پر تقسیم کیا جائے تو 7روپے میں ناشتہ 7روپے میں دوپہر کا کھانا اور 7روپے میں شام کا کھانا آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 1911ء یا 1946ء ہے 2018ء نہیںآج 7روپے میں ایک تندوری روٹی بھی نہیں آتی ہماری حکومت پولیس کے لئے اُس سیٹھ کی طرح ہے جس نے سیر کے دوران راستے میں پڑی ہوئی مونگ پھلی اُٹھا کر اپنے دوست کو دیدی اور احسان جتا تے ہوئے کہا ’’میرے ساتھ رہوگے تو اس طرح مزے کروگے‘‘رنجیت سنگھ کی ہاتھی کا واقعہ بھی اس پر صادق آتا ہے رنجیت سنگھ ایک میراثی سے خوش ہوا، اس خوشی میں میراثی کو انعام میں اپنا ہاتھی دیدیا رنجیت سنگھ کے ہاتھی کا بڑا خرچہ تھا نوکر چاکر تھے، خوراک اور نہلانے کے لئے زبردست انتظامات تھے میراثی نے مہاوت سے ہاتھی
کی لگام لے لی لوگوں نے مبارک باد دی ایک بنیا سب کچھ دیکھ رہا تھا بنیا بولا اس کا بڑا خرچہ ہے تم کیسے پورا کروگے؟میراثی نے کہا یہ اپنا
بندوبست خود کرے گامجھ پر بوجھ نہیں ہوگااگلے دن بنیا پھر آگیا تو کیا دیکھتا ہے میراثی نے ہاتھی کے کانوں کے علاوہ سونڈ اور دُم کے ساتھ بھی ایک ایک ڈھولک باندھا ہوا ہے ہاتھی کان ہلاتا ہے تو ڈھولک بجتا ہے سونڈ ہلاتا ہے تو ڈھولک بجتا ہے دم ہلاتا ہے تو ڈھولک بجتا رہتا ہے لوگ تماشا دیکھنے آتے ہیں پیسہ اناج اور دوسری چیزیں دے کر تماشا دیکھتے ہیں میراثی دولت سمیٹتاہے ہاتھی کو بھی کھلاتا ہے ،خود بھی عیش کرتا
ہے بنیا حیران ہوا کہ اپنا بندوبست یوں بھی ہوتا ہے ہماری سرکار پولیس کے انسپکٹر کو روزمرہ کے راشن کے لئے 22روپے اور ایک وقت کے کھانے کے لئے 7روپے تھما کر کہتی ہے کہ اپنا بندوبست کرو اور اس بندوبست کے ساتھ چور، ڈاکو، ڈاکو، سمگلر ، ڈرگ مافیا ، دہشت گرد نیز ہر قسم کے ملک دشمن عناصر کو پکڑو، قتل کے واردات کی تفتیش کرو، جنسی تشدد ، ڈاکہ زنی ، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوجاؤجرائم پر قابو پانے کے حوالے سے پولیس کے کردار پر دوسری خبر لاہور سے آئی ہے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس میں از خود نوٹس کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے پوچھا ، مقدمے کا چالان کب عدالت میں پیش کروگے؟پولیس نے کہا، قانون کی رو سے3ماہ بعد چالان پیش کیا جائے گاچیف جسٹس نے کہا یہ اہم مقدمہ ہے ملزم پکڑا گیا ہے میں تمہیں 90دن کی مہلت نہیں دے سکتا پولیس نے کہا قانون ہمیں 90دن کی مہلت دیتا ہے مطلب واضح ہے اگر زینب قتل کے ملزم عمران علی کا چالان 20دنوں کے اندر عدالت میں پیش کیا گیا تو تفتیش کا دروازہ بند ہوگاپولیس اپنا بندوبست کس طرح کرے گی90دنوں کی مہلت ’’ اپنا بندوبست ‘‘ کرنے کے لئے ہے اس دوران 400بندوں کو شامل تفتیش کیا گیا تو’’ اپنا بندوبست ‘‘ ہوجائے گاانگریز نے 90دن تفتیش کے لئے دیا تھا ہمارے حکمرانوں نے یہ مدت رکھی ہے تاکہ ’’ اپنا بندوبست‘‘ ہوسکے ماضی قریب میں پولیس کے نظام کو درست کرنے کی دو اچھی مثالیں دیکھنے میں آئیں ایک بُر ی مثال سامنے آئی بری مثال پولیس آرڈر 2002ہے جس نے پراسیکیوشن اور انوسٹی گیشن کے سسٹم کو برباد کردیااچھی مثال موٹروے پولیس کی ہے موٹر وے پولیس کو اچھی تنخواہ ، مراعات اور بہتر ٹریننگ دے کر میدان میں لایا گیاتجربہ قابل رشک حد تک کامیاب ہوادوسرے مثال اسلام آباد کیپٹل سٹی پولیس کی ہے اس کو بھی موٹر وے پولیس کی طرح منظم فورس کی حیثیت دیدی گئی سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت پولیس کو 2018ء میں راشن اور میسنگ کے لئے روزانہ 22 روپے دیکر جرائم پر قابو پانے میں بہتر نتائج کی توقع رکھتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں