262

’حقیقت خود کو منواتی ہے۔۔۔۔۔۔۔محمد شفی شفاء ۔ایس ایچ او تھانہ مستوج…‘

پُرامن چترال کی خوبصورت سرزمین میں بھی بعض دفعہ زندگی چیختی چنگاڑتی ہے۔اس کے کوہ سے ایسی داستانیں جنم لیتی ہیں کہ دھراتے ہوئے انسان ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔اور ششدر ہوتا ہے کہ یہ اشرف المخلوقات کہلانے والی مخلوق بھی کبھی درندگی پہ اُتر آتی ہے اور پتھر بن جاتی ہے۔پولیس کو پاسبان کہاجاتا ہے اور جان ومال وآبرو کا محافظ بھی۔اس لئے جہاں اس سے انصاف کی توقعات ہوتی ہیں وہاں اس کو ملامت کا خیمازہ بگتنا بھی پڑتا ہے۔جس کی داد رسی ہو وہ شاباس دیتا ہے۔یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ تنازعہ فرو کرتے ہوئے دونوں فریق کی داد رسی ہو۔دونوں حق پر ہوں دونوں کی غلطی نہ ہو ،دونوں کی حمایت کی جائے۔اس لئے پولیس مقہور ہے کہ وہ ایک کی حماعت کے کارن دوسرے کی مخالفت موہ لیتا ہے۔
پولیس کی زندگی قیدی کی سی ہے مگر اس کا کام عبادت کا سا ہے کیونکہ حق کی حمایت اور حق کا بول بالا عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔کسی کے جان ومال کی حفاظت میں کوشش جہاد کاساہے۔
میری زندگی اسی کشمکش میں گذر رہی ہے۔ایسے ایسے گران بہا لمحے آئے کہ فرض نبھاتے ہوئے کس کس کو سمجھایا جائے کہ تم غلط ہو۔اگر نہ ہو تو لفظ پولیس ایک گالی ہے۔
یہاں پر ایک داستان دلخراش بیان کررہا ہوں تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے۔میرے اور میرے ہم منصبوں کی مجبوریاں بھی عیاں ہوجائے اور قانون کی بالادستی کا بھی ذکر ہوجائے اور قانون کے دائرے کے اندررہنا پولیس کی فرض منصبی اور مجبوری تصور کیا جائے۔میں8آگست 2017کو تھانہ مستوج میں ایس ایچ او لگا۔اس سے دوسال پیشتر2015ء کو تحصیل مستوج کے ایک دور افتادہ گاؤں ژوپو یارخون کی ایک بیٹی کی شادی گاؤں بریپ میں ایک نوجوان اسلم بیگ سے ہوئی۔اسلم بیگ ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا۔تنومند مہذب جوان اسلم بیگ محنت مزدوری کرتا ان کی زندگی قابل رشک تھی۔اسلم بیگ بیرون ملک بھی گیا۔اور پھر ہرسال اپنے والد کے ساتھ اسلام آباد بھی مزدوری پر جاتا۔ذاکرہ کے گاؤں کا ایک آدمی جو پولیس میں کانسٹیبل تھا۔ذاکرہ سے ملنے آتا۔ان کی میل ملاپ پر گاؤں والوں کو شک گذرا ۔اسلم بیگ کی صحت خراب سی رہنے لگی اور نحیف سارہ گیا عورت زات بے وفائی پہ اُترے تو اس کی وفا بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔وہ سب کچھ بھول جاتی ہے۔اسلم بیگ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔شہاب الدین جو پہلے سے شادی شدہ تھا اور دوبچوں کا باپ تھا۔وہ اپنی بدکرداری کی بنا پر ایک خاندان کو تباہ کرنے کی ٹھانی۔ذاکرہ سے تعلقات بڑھائے اور ایک مرحلہ ایسا آیا کہ موصوف کانسٹیبل شہاب الدین ٹیلی فون پر رابطہ کرتا رہا۔اور اپریل2017ء کوسوات میں ڈیوٹی دے رہا تھا ذاکرہ سے فون پر رابطہ کیا اور اسلم بیگ کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام طے کئے۔شہاب الدین ایک ہفتے کی چھٹی لے کر اپنے گھر آیا۔اور 14اپریل کی رات کو اپنے بائیک نمبرLER5524پہ ذاکرہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ادھی رات کو اس کے گھر پہنچا۔اسلم بیگ اپنے کمرے میں سویا ہواتھا۔ذاکرہ نے اس کو قہوہ پلائی تھی اور شاید اُس میں کچھ ملاکے پلائی تھی۔ان کے بیان کے مطابق شہاب الدین سیدھا ذاکرہ کے کمرے میں داخل ہوااور اسلم بیگ جو کہ بے خبر سویا ہوا تھا۔اس کا گلہ دبایا۔ذاکرہ نے اس کی مدد کی۔اور چند منٹ بعد اسلم بیگ مرگیا۔شہاب الدین اور ذاکرہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے۔صبح ذاکرہ نے کہا کہ اسلم بیگ کو ہارٹ اٹیک ہوا۔گاؤں والے آئے ۔اس کا ابو اسلام آباد سے پہنچا۔عینی شاہدین کے مطابق اس کے بدن پر خراش کے نشانات تھے۔اس وقت کوئی رپورٹ نہیں ہوئی۔پولیس کو اطلاع نہیں دی گئی۔اس کو دفنایا گیا۔اس کے چھ مہینے بعد جب شہاب الدین اور ذاکرہ نے شادی رچائی تو اسلم بیگ کے رشتہ دارں کا شک یقین میں بدل گیا اور اُنہوں نے چھ مہینے بعد پولیس میں رپورٹ کی۔پولیس نے اپنی ممکنہ تفتیش کی بنیاد پر بہت کم مدت میں اند ھے قتل کا سراغ لگایا۔اور دونوں ملزم عدالت کے سامنے اقرار جرم کرگئے۔
معاشرے میں کچھ ایسے ہیں جن کے نزدیک پولیس کی یہ کارکردگی بھی سوالیہ نشان رہی۔سوال یہ ہے کہ معاشرے میں پولیس جان ومال اور عزت وآبرو کا محافظ ہے۔اس کی کارکردگی کو سراہا کیوں نہیں جاتا۔اس کے ساتھ مدد کیوں نہیں کی جاتی۔اس کی اچھی کارکردگی کواچھا کیوں نہیں کہا جاتا۔زندہ قوموں کے شیوے ایسے نہیں ہوتے۔چترال امن کی سرزمین ہے۔یہاں پرامن اسکے باشندوں اور حفاظتی اداروں کی بدولت ہے۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کی حفاظت سب کو کرنی ہے ۔اداروں کی مثبت کارکردگی کو سب کو سراہنا ہے۔بُرائی کی حفاظت کسی کو نہیں کرنی۔اگر ایسا ہوگا توکتنے مظلوم اسلم بیگ ظلم سے محفوظ ہونگے اور کتنے درندے ذاکرہ اور شہاب الدین اپنے کیفرکردار تک پہنچیں گے۔
چترال پولیس پر عوام کا اعتماد مثالی ہے اور پولیس بھی عوام کی توقعات پر اُترنے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔میری 27سالہ کیرئر میں ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے جس میں پولیس ایک ازمائش سے گذری،مگر حق کی راہ میں جدوجہد میں اللہ مدد کرتا ہے۔میں نے دیر ،سوات اور چترال میں نوکری کے دوران ہر حال میں فرض کو جان سے زیادہ عزیزرکھا ہے۔میرا رب چترال پولیس کو ہر مرحلے میں سرخرو رکھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں