291

تحریک آزاد�ئکشمیر۔۔۔ 1925 ء تا ہنوز،قدم بقدمز۔۔۔۔مولانا محمد جہان یعقوب

کشمیر کی آزادی کے لیے کوشش کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی کشمیر کی آزادی سے کس حد تک مخلص ہے!
کشمیرکے باسیوں کو ان کا حق کبھی بھی مذاکرات کی تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کیا جائے گا، اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ حق دیا جا چکا ہوتا،ایک دستاویزی تحریر

*…. 1925میں ہری سنگھ کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو بطور خاص مشق ستم بنایا گیا۔
*…. 1925میں شیخ محمد عبداللہ نے ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے پہلی مسلم تنظیم بنائی۔
*…. چوہدری غلام عباس مرحوم نے کرینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو منظم کیا۔
*…. 1931کو دیاسی میں مسجد شہید کر دی گئی۔
*…. مسلمانوں کو کوٹلی میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔
*…. ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔
*…. ان مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں مسلم رہنما عبدالقدیر کو گرفتار کرلیا گیا۔
*…. جس جیل میں عبدالقدیر کو رکھا گیا، اس کا محاصرہ کرنے پر 27 مسلمان شہید کر دیے گئے۔
*…. 25 جولائی 1931کو علامہ اقبال کی موجودگی میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی، اس اجلاس میں خواجہ حسن نظامی، اے آر ساغر، اسماعیل غزنوی جیسی قدر آور شخصیات موجود تھیں۔
*…. کمیٹی کا صد قادیانی رہنما مرزا بشیر الدین محمود کو بنایا گیا۔ مرزا بشیر الدین نے اس انتخاب کو اپنی حقانیت کی دلیل کے طور پر خوب استعمال کیا جس کے نتیجے میں کافی مسلمان قادیانی ہوگئے۔
*…. امیر شریعت علامہ سید عطااللہ شاہ بخاری نے ملک کے طول و عرض کے ہنگامی دورے کیے، قادیانی عزائم کا پردہ چاک کیا، جس کے نتیجے میں قادیانیت قبول کرنے والے تمام لوگ دوبارہ مسلمان ہو گئے۔
*…. علامہ محمد اقبال نے جب دیکھا کہ کشمیر کمیٹی قادیانی عزائم کیلئے کام کر رہی ہے تو مستعفی ہو گئے۔
*…. ڈوگرہ راج کی سخت نگرانی کے باوجود 14 اگست 1931کو یوم کشمیر (کشمیر ڈے) منایا گیا۔
*…. مجلس احرار کے قائدین نے 1931میں ہری سنگھ حکومت سے افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات حل کرنے کیلئے مذاکرات کیے، مگر حکومت نے انکار کر دیا۔
*…. قائدین احرار کی کال پر پنجاب سے دس ہزار سے زائد نوجوان گرفتاریاں دینے جموں پہنچ گئے۔
*…. میرپور میں ایک مسلمان کارکن کو سرعام ایک ڈوگرہ افسر نے قتل کر دیا۔
*…. 30 مجاہدین نے تین دن کی انتھک محنت کے نتیجے میں دریائے جہلم پر کوہالہ پل پر قبضہ کرکے اسے بند کر دیا جو کشمیر کے ساتھ تجارت کی واحد شاہراہ تھی۔
*…. گجرات اور گورداس پور کے مکینوں نے بھی تحریک کا آغاز کر دیا، تاہم ہندوں کی اکثریت کی بنا پر کامیابی نہ ہو سکی۔
*…. مہاراجہ کی درخواست پر برطانوی حکومت بھی مجاہدین کے خلاف اس کی پشتی بانی کرنے لگی۔
*…. مسلمانوں نے اس قدر گرفتاریاں پیش کیں کہ جیلیں کم پڑ گئیں اور احرار کے دفاتر کو سب جیل قرار دیا گیا۔
*…. ان قربانیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ سربی جے گلینسی کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں مسلمانوں کی نمایندگی چوہدری غلام عباس کر رہے تھے، کمیشن کے مقاصد میں ریاست میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینا، ان کے حقوق کی نشاندہی اور شہداکے کوائف وغیرہ جمع کرنا شامل تھا۔
*…. کمیشن کی تجویز اور انگریزوں کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے دبا کے تحت مہاراجہ نے 75 رکنی ایک اسمبلی قائم کی، جس میں 21 مسلمان رہنما بھی شامل تھے۔
*…. 1933میں پتھر مسجد سری نگر میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا، جس کا صدر شیخ محمد عبداللہ اور جنرل سیکریٹری چوہدری غلام عباس کو منتخب کیا گیا۔
*…. 1934میں راشٹریہ سیوک سنکھ نے حکومتی چھتری تلے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
*…. 1935میں شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
*…. عوام اپنے قائدین شیخ عبداللہ، چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر کی قیادت میں منظم ہونے لگے۔
*…. 1939میں گاندھی اور جواہر لال نہرو کی کوششیں، نیز نگاہوں کو خیرہ کرنے والی حکومتی مراعات کی پیشکش رنگ لائی اور مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما شیخ عبداللہ نے وفاداریاں تبدیل کر لیں اور مسلم کانفرنس کے خلاف کشمیر نیشنل پارٹی، جو درحقیقت کانگریس کی بی ٹیم تھی، کی داغ بیل ڈال دی۔
*…. مسلم کانفرنس چوہدری غلام عباس کی قیادت میں جانب منزل گامزن رہی اور تمام تر سازشوں کے باوجود 1945کے انتخابات میں 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
*…. ڈوگرہ راج نے اس صورت حال سے بدحواس ہو کر مسلم کانفرنس پر پابندی لگا دی۔
*…. 1946کو منظور ہونے والے تقسیم ہند کے فارمولے میں جن 562 ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے جس ملک سے چاہیں الحاق کر لیں، ان میں خطہ کشمیر بھی شامل تھا۔ جموں میں 80 فیصد مسلمان بستے تھے اور سب کی اولین خواہش یہی تھی کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیں۔ پونچھ میں 95 فیصد مسلمان بستے تھے اور ان سب کی اولین خواہش تھی کہ یہی وہ پاکستان کا حصہ بنیں۔
*…. جموں کے مسلمانوں کا قتل عام کرکے انہیں شہید کر دیا گیا۔
*…. پونچھ کے مسلمانوں نے سردار محمد عبدالقیوم کی قیادت میں مزاحمت کی اور افواج کو عبرت ناک شکست دی۔ کیپٹن فیروز خان اور میجر نصراللہ جیسے شیر دل کمانڈروں کی سرکردگی میں لڑے جانے والے ان معرکوں کے نتیجے میں بھمبر، میرپور، مینڈھیر، راجوری اور نوشہرہ کو بھی آزادی حاصل ہو گئی۔
*…. ادھر پاکستانی قبائل میں ڈوگرہ راج کے خلاف بھڑکنے والی آتش انتقام نے اپنا کام دکھا دیا اور 4 اکتوبر 1947میں ہزاروں وزیر، محسود اور آفریدی قبائل بٹراسی کے جنگلات میں جمع ہو گئے اور 20 اکتوبر کی شب مجاہدین نے میجر خورشید انور اور خوش دل خان کی کمان میں پیش قدمی کا آغاز کیا اور کوہالہ، دومیل اور مظفرآباد کو فتح کرتے ہوئے بارہ مولا اور سری نگر تک پہنچ گئے۔
*…. 24 اکتوبر کو مجاہدین نے سری نگر سے 35 میل پہلے مہورہ کا پاور ہاس اڑا دیا، جس سے پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
*…. خطہ کشمیر آزادی سے محض چند گھنٹوں کے فاصلے پر تھا اور سری نگر ائیرپورٹ پر قبضے کی گھڑی قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک کایا پلٹ گئی۔
*…. تاریکی کا فائدہ اٹھا کر مہاراجہ جموں کی طرف فرار ہوگیا اور یہاں پہنچ کربھارت سے مدد کا خواستگار ہوا۔
*…. بھارت نے امداد کواس شرط کے ساتھ مقید کر دیا، کہ راجہ جموں و کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دے اور بزدل راجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیے۔
*…. بھارت نے یکایک حملے شروع کر دیے اور مجاہدین کو ان کے باہمی افتراق کی بدولت پسپا کر دیا۔
یوں ریاست جموں و کشمیر پاکستان کی گود میں آتے آتے بھارت کے غاصبانہ قبضے میں چلی گئی، وہ دن ہے اور آج کا دن، مسلمان لاکھوں کی تعداد میں قربانی دینے کے باوجود آزادی حاصل نہیں کر سکے۔
*…. ہر چند کہ اس مسئلے پر ہر سطح پر مذاکرات اور معاہدے ہوئے مگر بھارت ٹس سے مس نہیں اور اس نے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ، جورو جبر اور تشدد و فرعونیت کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
*…. یہ ایک یقینی امر ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق کبھی بھی مذاکرات کی تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کیا جائے گا، اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ حق دیا جا چکا ہوتا۔ آئیے مذاکرات اور معاہدوں پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں:
*…. مارچ 1949میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے افواج کے انخلا کا پروگرام پیش کیا، مگر بھارت نے صاف انکار کر دیا۔
*…. اگست 1949میں ایڈمرل نمسٹر کی ثالثی اور فوجوں کے انخلا کا فیصلہ پاکستان نے تسلیم کیا، مگر بھارت نے اسے مسترد کر دیا۔
*…. دسمبر 1949میں سلامتی کونسل کی تجاویز کو پاکستان نے منظور اور بھارت نے مسترد کر دیا۔
*…. 1951سے 1958تک ڈاکٹر گراہم کے پیش کردہ فارمولوں کوپاکستان منظور اور بھارت مسترد کرتا رہا۔
*…. 1947سے لے کر 1965تک یہ مسئلہ 132 مرتبہ زیر بحث لایاگیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔اب بھی صورت حال جوں کی توں ہے، لہٰذا ان حقائق کے پیش نظر یہ دعوی ٰبے محل نہیں کہ کشمیر مذاکرات اور معاہدوں سے نہیں، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ سے آزاد ہوگا۔ابھی یوم کشمیر کے موقع پر ایک سابق بھارتی وزیر اور کانگریس کے رہ نما مانی شنکر آئر کا وہ بیان جو انھوں نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بیٹھ کر دیا ہے ،ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت مسائل مذاکرات سے حل کرنا پاکستان کی پالیسی ہے، مگر بھارت کی پالیسی نہیں۔ان کا یہ بیان محض ایک تخمینہ یا دور ازکار تجزیہ نہیں ،بلکہ ایک ایسے شخص کا اظہار حقیقت ہے جو خود بھارت کے پالیسی ساز وں میں شامل رہا ہے۔اس کے بعد بھی مذاکرات ،مذاکرات کی رٹ لگانا اور دوسری طرف کشمیر میں تن من دھن لٹاکر اپنے مظلوم ومقہور بھائی بہنوں کی آزادی کے لیے شب وروز کوششیں کرنے والی جماعتوں کو دہشت گرد قرار دینا یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے حکم ران اور بیوروکریسی میں بیٹھے پالیسی ساز کشمیر کی آزادی سے کس حد تک مخلص ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں