296

جنگلا ت کی رائلٹی کے تقسیم کا مسئلہ، ضلعی انتظامیہ اور جے ایف ایم سیز آمنے سامنے؛ رائے عامہ ضلعی انتظامیہ کے حق میں ہے

چترال( خصوصی رپورٹ) ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جنگلات کی رائلٹی کی تقسیم کے نئے طریقہ کار متعارف کرنے کے بعد جنگلاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ’’جوائنٹ فارسٹ منیجمنٹ کمیٹیز ‘‘ یعنی JFMCنے اس پر شدید اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس اقدام کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ دس دنوں کے اندر اگر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ویری فکیشن کا عمل نہ روکا گیا تو چترال کے دیگر علاقوں کو جلانے اور عمارتی لکڑی کی سپلائی بند کی جائے گی۔ ایک پریس کانفرنس میں جے ایف ایم سی کے نمائندگان جو کہ در اصل ٹمبر کے ٹھیکیدار ہیں نے جن عوامل کا ذکر کیا ہے اسکے بعد عوامی حلقوں میں جنگلات کی رائلٹی کو لیکر بحث مباحثے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔جنگلات کی رائلٹی کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے حالیہ اقدامات اور جے ایف ایم سیز کی طرف سے اسکی مخالفت کا معاملہ سوشل میڈیا میں بھرپور بحث و مباحثے کا موضوع بنا ہوا ہے جہاں پر اکثریتی رائے ضلعی انتظامیہ کے اقداما ت کے حق میں ہے اور جہاں ضلعی انتظامیہ کے اقدامات کو سراہا جارہا ہے وہیں ٹمبر کے کاروبار سے منسلک افراد پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ اسی طرح عوامی حلقوں میں بھی یہ موضوع آجکل ہر جگہ زیر بحث ہے۔ عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ جنگلات کی رائلٹی میں کروڑوں روپے نہیں بلکہ اربوں روپے غبن ہوا ہے مگر اسے طشت ازبام کرنے والوں کو ہمیشہ متعلقہ مافیا کسی نہ کسی طریقے سے چپ کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ رائے عامہ کا موقف ہے کہ جنگلات کے کاروبار سے منسلک یہ بڑے ٹھیکیدار مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اہم تنظیمات میں بھی کلیدی اثر و رسوخ رکھتے ہیں جسکی وجہ سے ہمیشہ انکی بات کو اہمیت ملتی رہی ہے اور حقائق منظر عام میں لانے اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کی کوششیں رائیگان جاتی ہیں۔ اس حوالے سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ چترال میں موجود تمام اہم سیاسی جماعتوں میں اہم حیثیت رکھنے والے ان ٹھیکیداروں کو سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے تنظیمات کا موثر پلیٹ فارم دستیاب رہتا ہے جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے ابتک ان لوگوں نے اربوں روپے ہتھیا لئے ہیں اور اب چیف سیکرٹری کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ویری فکیشن شروع ہونے کے بعد انہیں اپنا چولھا بجھتا ہوا نظر آیا ہے جسکی وجہ سے مذکورہ طاقتور مافیا اس سارے عمل کو مقامی روایات سے بے بنیاد طور پر منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر جے ایف ایم سی والوں کی طرف سے پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے باتوں میں صداقت ہے تو پھر آج جنگلاتی علاقے کے لوگوں کی حالت زندگی یکسر بدل چکی ہوتی اور وہاں کے عام لوگ بھی اسی طرح زندگی بسر کررہے ہوتے جو کہ اس کاروبار سے منسلک ٹھیکیدار کر رہے ہیں، کیا وجہ ہے کہ جنگلات کے ٹھیکیدار دروش، چترال، پشاور اور اسلام آباد تک کروڑوں روپے کے جائیداد ، بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک اور سیاست و افسران کے تقرر و تبادلوں میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں مگر جنگلاتی علاقوں کے عام لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سوشل میڈیامیں ہونے والے بحث مباحثوں میں ٹمبر مافیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ڈپٹی کمشنرکی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو پذیرائی مل رہی ہے۔
دوسری طرف عوامی حلقوں میں سوال یہ بھی زور وشور سے اٹھایا جارہا ہے کہ اگر جنگلات کی رائلٹی اب تک درست تقسیم ہورہی تھی تو جے ایف ایم سی والے سارے ریکارڈ متعلقہ حکام کے سامنے پیش کریں ، اپنے اپنے علاقوں کے مساجد میں تفصیلات آویزان کریں، مختلف فورم میں پیش کریں مگر حقائق جے ایف ایم سی کے دعوؤں کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ذرائع کے مطابق ایسے ایسے انکشافات بھی ہورہے ہیں کہ مبینہ طور پر رائلٹی ہولڈر 5ہزار روپے ادا کرکے دستاویزات میں 50ہزار درج کئے جاتے ہیں، 7ہزار ادا کرکیا آگے پیچھے ایک یا دو ہندسوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور لوگوں سے دستخط لئے جاتے ہیں۔ چترال پوسٹ کی طرف سے کچھ عرصہ پہلے جنگلاتی علاقے بریر ، رمبور اور بریر میں ایک غیر رسمی سروے کے دوران معلوم ہوا تھا کہ وہاں پر خواتین کو رائلٹی میں بالکل حصہ نہیں دیا جاتا اور گھر کے صرف مرد افراد رائلٹی حاصل کرتے ہیں۔ اگر واقعی میں خواتین کو شامل کرکے جنگلاتی علاقوں میں ہر خاندان کو رائلٹی مل رہی تھی تو اس حساب سے دستاویزات سامنے لائی جائیں مگر ایسا ممکن نہیں۔جہاں تک با پردہ خواتین کو گھروں سے باہر نکالنے کی بات ہے رائے عامہ کے حلقے جے ایف ایم سیز کے اس بیان سے متفق نہیں ہیں اور عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایسا کبھی نہیں کہا گیا ہے کہ خواتین کسی دفتر میں آکر رائلٹی وصول کریں بلکہ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ویری فکیشن اور اعدادوشمار جمع ہونے کے بعد افراد یعنی مرد اور خواتین کے تعداد کی حساب سے رائلٹی کا چیک رائلٹی ہولڈرز کے گھر میں جا کر متعلقہ گھرانے کے سربراہ کو دیا جائے اور اگر جے ایف ایم سی والے چاہیں تو ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کیساتھ اس ضمن میں تعاؤن کرکے خود بھی بد نامی سے بچ سکتے ہیں۔ درایں اثناء عوامی حلقوں نے ڈپٹی کمشنر سمیت اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں کسی دھونس ، دھمکی اور بلیک میلنگ میں آئے بغیر شفاف انداز میں کام جاری رکھا جائے نیز ابتک تقسیم ہونے والے رائلٹی کی نیب کے ذریعے تحقیقات کرائے جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں