303

داد بیداد۔۔۔۔۔۔سمسٹر اور ہمارا صوبہ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

لاہور ، کراچی اور اسلام آباد کے تعلیمی حلقوں کے ساتھ ساتھ ایٹا، پبلک سروس کمیشن اور این ٹی ایس کے ذمہ دار حکام کی بھی نپی تُلی رائے یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں سمسٹر سسٹم کو زوال آیا ہے اس سسٹم کو آئے ہوئے ابھی 40سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک اچھا امتحانی نظام ہمارے صوبے میں ناکامی سے دوچار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کسی یونیورسٹی یا پوسٹ گریجویٹ کالج میں ، کسی بی ایس سی پروگرام کے کلاس روم میں اس کی ناکامی سب کو نظر نہیں آتی جب 90فیصد نمبر لینے والا گولڈ میڈلسٹ یہاں سے ڈگری لیکر لاہور، اسلام آباد ، کوئٹہ ، کراچی یا ملتان جاتا ہے تب پتہ لگتا ہے کہ سمسٹر سسٹم کو خیبر پختونخوا میں ناکامی سے دوچار کیا گیا ملازمتوں کے لئے امتحان لینے والے ادارے جب ہمارے گولڈ میڈلسٹ کا پرچہ دیکھتے ہیں یا اس کا انٹرویو لیتے ہیں تو اپنے تاثرات میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں خاص کر کے پنجاب اور سندھ میں اعلیٰ عہدوں پر ہمارے صوبے کے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ نئی نسل کی بربادی پر ماتم کرتے ہیں اُن میں سے جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ دو تین سالوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے اصلاحِ احوال کی اُمید لیکر آتے ہیں مگر مایوس ہوکر واپس جاتے ہیں لاہور ، اسلام آباد اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں اس بات کا جائزہ ہوتا ہے کہ کس پروفیسر کے مضمون میں زیادہ طلبہ اور طالبات فیل ہوئے یا کم نمبروں سے پاس ہوئے کوالٹی ان ہینس منٹ سیل ْ (QEC) ان کے نام انعام کے لئے بھیجتا ہے ترقی کی سفارش کرتا ہے خیبر پختونخوا میں دستور ہے کہ پروفیسر کو مارکیٹنگ ایجنٹ قراد دیا گیا ہے جو پروفیسر زیادہ نمبر دے گا زیادہ سے زیادہ طلبہ و طالبا ت کو پاس کرے گا اور زیادہ سے زیادہ کو 80فیصد سے اوپر نمبر دے گا وہ انعام اور ترقی کے لائق ہوگاکیونکہ اس کے مضمون میں زیادہ سے زیادہ لوگ داخلہ لیں گے وہ زیادہ سے زیادہ آمدنی لائے گایونیورسٹی اور کالج میں اُس پروفیسر کو سر آنکھوں پربٹھایا جاتا ہے جو ’’ گپ شپ‘‘ میں اچھا ہوکینٹین اور سوشل ایریا کا مقبول ایکٹر ہولطیفے سنانے والا ہو ،ایکٹنگ کرنے والا ہو اُس پروفیسر سے سب جان چھڑانا چاہتے ہیں جو معیار کی بات کرے طلبہ اور طالبات کو مطالعہ کی نصیحت کرے کام پر لگائے کلاس میں نوٹ نہ لکھوائے، لیکچر نوٹ تقسیم نہ کرے ہر پرچے اور ہر کورس دس ، بارہ پاکستانی اور پانچ ، چھ غیر ملکی کتابیں پڑھ کر تیاری کرنے پر زور دے ایسا پروفیسر خیبر پختونخوا میں ناکام اور نامراد سمجھا جاتا ہے طلبہ اور طالبات کو کام کرنے اور کام لینے والے پروفیسر کی قدرو قیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اُن کو لاہور یا اسلام آبادکے کسی تعلیمی ادارے کے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے یونیورسٹی آف گجرات سے آنے والا طالب علم 60فیصد نمبر لیکر آتا ہے ٹیسٹ میں اچھا سکور کرتا ہے ، انٹرویو میں بہترین پرفارمنس دیتا ہے کلاس میں سب سے بہتر نظر آتا ہے کیونکہ اُس نے کم از کم 50 یا 60پاکستانی محققین کی کتابیں پڑھ کر آیا ہے اُس کے پاس کم سے کم 30یا 35کتابوں کا علم ہے خیبر پختونخوا میں 90فیصد نمبر لینے والے نے 10کتابیں نہیں پڑھیں اس کو اپنے مضمون میں 15مصنفین کے نام اور کتابو ں کے ٹائٹل معلوم نہیں اُس کا پیپر کسی جرنل میں شائع نہیں ہوا اس کا لہجہ نہ اردو میں کسی کو متاثر کر سکتا ہے نہ انگریزی میں دھاک بٹھا سکتا ہے اُسکا ’’ ٹرانس کرپٹ ‘‘ جعلی معلوم ہوتا ہے وہ خود کو ملامت کرتا ہے یہ زمینی حقائق ہیں ہوائی باتیں نہیں ہیں ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی کے حکام کو ان امور کا بروقت جائزہ لینا چاہیئے اور صوبے سے باہر صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ساکھ بہتر بنانے کے ساتھ صوبے کی نئی نسل کو ملکی اور عالمی سطح پر مقابلے کے لئے تیار کرنے پر توجہ دینی چاہیئے مجھے ایک ٹی وی پروگرام میں جمشیدعلی خان اور رحیم شاہ کا مکالمہ یاد آتا ہے جمشید علی خا ن نے پروگرام کے آخر میں رحیم شاہ سے کہا ، آپ صوبے کے عوام نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ رحیم شاہ نے برجستہ جواب دیا’’ میراپیغام یہ ہے کہ دو نمبری کے بغیر بھی خدا روزی دیتا ہے‘‘آتش نے بڑی بات دو مصرعوں میں کہی
سن کہ جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں