252

پروفیسر ایسوسی ایشن کے مطالبات۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانیؔ

استاد چاہیے اسکول و کالج کا ہو یا یونیورسٹی و دینی جامعات کا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ قوم کے مستقبل کو تعمیر کرتا ہے، استاد ہی ہوتا ہے جو ملک و ملت کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے اور قوموں کے مستقبل کا محافظ ہوتا ہے۔استاد ہی کی بدولت قوموں کی زندگیاں سنورتی ہیں اور افراد کی زندگی اور تقدیر بدلتی ہے۔ایک استاد ہی ہوتا ہے جو اپنی بے پناہ محنت ، فکر مندی اور خلوص و ایثار کے ساتھ پتھروں کو تراش کر جواہر بنادیتا ہے اور لعل و گوہر تیار کررہا ہوتا ہے۔آج کی مغربی دنیا میں استاد ہی ہے جو اپنی شبانہ روز محنت اور کاوشوں سے پالیساں بناتا ہے اور ملکوں اور قوموں کو پالیساں دیتا ہے اور سوچ و بیچار پر مجبور کرتا ہے۔استاد ہی کی بنائی ہوئی پالیسوں کی مرہون منت مغربی اقوام دنیا پر راج کررہی ہیں۔میں مکمل وثوق سے کہتا ہوں کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکی طاقت کا سہرا ان اساتذہ کو جاتا ہے جنہوں نے شعبہ ہائے زندگی کے ہر فیلڈ میں بے پناہ محنت کی اور نئی نئی اختراعات اور تحقیقات و ایجادات کے ذریعے دنیا کونہ صرف مبہوت کیا بلکہ اپنا غلام بھی بنا ئے رکھا ہے۔آج کی مغربی دنیا کی سپرمیسی اور طاقت ان کے ایٹم بموں اور بڑھتا ہوا عسکری بجٹ نہیں بلکہ ریسرچ اکیڈمیوں اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی لاتعداد تحقیقات اور ایجادات ہی ہیں۔میں ایمان کی حد تک یقین اور وثوق سے کہتا ہوں کہ امریکہ کے سپر طاقت ہونے کا واحد سبب لکسٹر نا کا علاج دریافت کرنی والی پروفیسر ڈاکٹر کیتھرائین جیسے لاتعداد استاد، پروفیسر اور پی ایچ ڈی اسکالرزہی ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور انہی کی مرہون منت قومیں ترقی و عروج کے منازل طے کرتیں ہیں۔
اگر استاد اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کریں اور اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف جاب ہو تو پھر یاد رہے کہ انسان تباہی کے دھانے کھڑا ہوگا اور انسانیت کے لیے ہمدرد او رخیر خواہ انسان کا ملنا اور محبتوں کے شناورں کا فراہم ہونا مشکل ہوجائے گا۔
ہمارے نبی ﷺ کے سیرت میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔بلاشبہ نبی ﷺ ایک بہترین اور کامیاب معلم اور مدرس و استاد بن کر آئے ہیں۔آپ ﷺ کی فراست، حکمت اور تعلیمات کی وجہ سے ہی ایسے انسان تیار ہوئے کہ اس سے بہتر انسان کی آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی تربیت یافتہ اور صحبت پانے والوں نے دنیا میں علم کے چراغ جلائے۔ کاش آج کا مسلم استاد تھوڑی سی رمق اور رہنمائی آپ ﷺ سے بھی لے لیتا۔
گزشتہ دن گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری منعقد ہوئی۔ پروفیسر ارشاد شاہ اور اس کی چودہ رکنی کابینہ نے وزیر تعلیم گلگت بلتستان ابراہیم ثنائی صاحب سے حلف لیا۔تقریب حلف برداری میں مختلف کالجز کے پروفیسروں اور لیکچراروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اور ڈائریکٹر ایجوکیشن اور دیگر آفیشلز نے بھی شرکت کی۔ایسوسی کے سابق صدر پروفیسر راحت شاہ، نگران کابینہ کے صدر پروفیسر محمد رفیع، اور نومنتخب صدر پروفیسر ارشاد احمد شاہ اور اشتیاق احمد یاد نے پروفیسر ایسوسی ایشن کی تاریخ، وجود میں آنے کے مقاصد اور پورے گلگت بلتستان کے کالجز کے مسائل، اور مطالبات و سفارشات کو انتہائی سلیس، مختصر اور جرات کے ساتھ ارباب اختیار کے سامنے رکھا۔ان صاحبان کی طرف سے پیش کردہ سفارشات اور مسائل کااختصار کے ساتھ خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرونگا اس امید کے ساتھ کہ ارباب اختیار اور صاحبان بست و کشاد ایسوسی ایشن کی گزارشات کو سنجیدگی سے لیں گے۔مطالبات درج ذیل ہیں۔
۱۔کالجز میں بہترین نظام تعلیم پروان چڑھانے کے لیے ہمہ جہت کوششیں ضروری ہیں۔جس کے لیے داخلہ پالیسی کو از سرنو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے باقاعدہ مستقل کمیٹی تشکیل دی جائے۔
۲۔تمام کالجز میں فیکلٹی ممبران کی کمی ہے جس کو پورا کرنا بہر صورت ضروری ہے۔ اور یہ ڈائریکٹریٹ اور ایجوکیشن سیکریٹریٹ کی اہم ذمہ داری ہے۔انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔
۳۔حالیہ دنوں میں محکمہ تعلیم گلگت بلتستان میں کریٹ ہونے والی اسامیوں میں پچاس فیصد کاکوٹہ کالجز کو دیا جائے۔
۴۔کالجز کے پی سی فور کے مسائل فوری حل کے متقاضی ہیں۔جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
۵۔ فیکلٹی ممبران کی پرموشن بھی ایک سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے اس کو بھی اصول و ضوابط کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ تاکہ بنیادوں حقوق کی فراہمی میں کوتاہی نہ ہو۔بعض لیکچرارگزشتہ سترہ سال سے ایک ہی سکیل میں کام کرتے ہیں۔
۶۔ گلگت بلتستان سیکریٹریٹ میں کالجز کے لیے الگ سیکرٹریٹ بنایا جائے جس میں تمام ذمہ دار عملہ کالجز سے ہی لیا جائے۔کالج سیکشن کا اپنا الگ سیکرٹری ہو، جیسے تمام صوبوں میں ہوتا ہے۔
۷۔ دیگر صوبوں کی طرح یہاں بھی Revised four tier اور Higher Time ,Time Scale کا اطلاق ضروری ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر احکام صادر ہونے چاہیے۔ابھی تک تاخیری حربے استعمال کیے گئے جو قابل مذمت ہیں۔اور اساتذہ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وفاق سمیت دیگر صوبوں میں اس پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔
۸۔ جی بی کالجز میں BS پروگرامات شروع کیے جانے والے ہیں اس کے لیے بھی بہترین پالیسی میکنگ کی ضرورت ہے۔ اس پر کمیٹی تشکیل دے کر کالجز کے ممبران اور ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی لیے جائیں اور فیکلٹی ممبران کے حقوق کا مکمل تحفظ ہو۔تعلیمی پالیسوں کے تشکیل واجراء میں ماہرین تعلیم کا ہونا از بس ضروری قرار دیا۔بند کمروں میں بنائی جانے والی پالیساں گراونڈ میں کام کرنے والوں کے لیے لاتعداد مسائل پیدا کرتی ہیں۔اس سے گریز کیا جاوے۔
۹۔ حکومت کی طرف سے ایک پالیسی بنا کر جی بی کالجز کے فیکلیٹی ممبران کو ایم فل پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت دی جانی چاہیے ۔بی ایس پروگراموں میں تدریس کے لیے بھی فیکلٹی ممبران کو ٹریننگ کے ذریعے تیار کیا جائے۔
۱۰۔ وید ر پالیسی کو فوری نافذ العمل بنایا جانا ضروری ہے۔جب بھی پروفیسروں اور لیکچراروں کو تھوڑے سے بھی جائز مراعات ملتے ہیں یا دینے کی بات ہوتی ہے تو بیوروکریسی کا ایک طبقہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو یقیناًتذلیل استاد ہی کہلائے گا۔
یہی کچھ پروفیسروں کے مطالبات تھے جو انہوں نے محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کے سامنے بلاکم و کاست پیش کردیا۔ وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی صاحب نے انتہائی خوش دلی اور متانت کے ساتھ ان تمام مفصل مطالبات کو نہ سنا بلکہ جائز اور برحق بھی قرار دیا اور حتی الامکان تمام مطالبات حل کرنے کی یقین دھانی بھی کرائی اور تعلیم کے حوالے سے بننے والی پالیسوں میں پروفیسروں کی شرکت کو یقینی بنانے کا عندیہ بھی دے دیا۔
ابراہیم ثنائی صاحب نے فرینکلی ماحول میں کالجز اساتذہ کو مخاطب کیااور ان کو ان کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا۔ اور بعض معاملات بالخصوص تحقیق و تدقیق اور علمی و ادبی تخلیقات میں اساتذہ کی سستی ،لاپرواہی اورعدم توجہی کا خصوصی ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ اساتذہ نوکری کے علاوہ بھی تحقیق اور تفتیش کے لیے روزانہ تھوڑا وقت دیں۔ اور ہمیں مجبور کریں کہ ہم اساتذہ کی کوششوں کو اور بنائی ہوئی پالیسوں کو قانونی شکل دیں۔حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہوتے ہیں بلکہ حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ثنائی صاحب نے ایک بہت ہی خوبصورت بات بھی کہی کہ ریسرچ کے لیے پورا گلگت بلتستان ایک بہترین ریسرچ سینٹر کی حیثیت رکھتا ہے، جی بی کے ہر فیلڈ اور ہر چیز میں ریسرچ کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اشد ضرورت بھی ہے۔ لیکن ثنائی صاحب یہ بتانا بھول ہی گئے کہ ہر فیلڈ اور شعبے میں ریسرچ کے لیے انسٹیٹوٹ قائم کرنا اور مواقع فراہم کرنے کی اولین ذمہ داری محکمہ ایجوکیشن اور گوررنمنٹ کی بنتی ہے۔ اگر حکومت مختلف شعبوں میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کرے اور پروفیسروں کو مغربی دنیا کی طرح مراعات کے ساتھ مواقع فراہم کرے تو پھر گلہ کا حق بھی بنتا ہے لیکن بغیر کسی ادارے اور سہولت کے پروفیسروں سے ریسرچ اور بالخصوص پیور سائنسز اور سماجیات میں تحقیقات اورنئی تھیوریز کا تقاضہ اور مطالبہ کرنا مضحکہ سا لگتا ہے۔بہر صورت امید ہے کہ ارباب اختیار کے ساتھ پروفیسر برادری بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرے گی۔ ایسوسی ایشن کو کوئی پریشرگروپ نہیں ہونا چاہیے بلکہ انٹیلکچول براردی کے طور پر اپنے حقوق کے مطالبوں کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی احسن انداز میں نبھانا چاہیے۔تب تو کسی بہترکی امید کی جاسکتی ہے۔ ہاں بیورکریسی میں متعین ذمہ داروں کو بھی چاہیے کہ وہ اساتذہ بالخصوص کالجزِ اساتذہ کو بھی انسان سمجھے اور ان کے جائز حقوق کی فراہمی میں روڑے نہ اٹکائے، پرنسپل صاحبان اور ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ میں متعین دوستوں کو بھی ڈکٹیٹر کے بجائے سپورٹر بننا چاہیے اور فیسلٹیٹر کا کردارادا کرنا چاہیے تاکہ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھیں۔۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں