214

چترال ایک تجربہ گاہ۔۔۔۔بشیر حسین آزاد

چترال شہر کے دفاتر اور بازاروں میں ہرجگہ گاڑیوں کی پارکنگ کا مسئلہ روز بروز گھمبیر صورت اختیار کررہا ہے نجی عمارتیں بھی نقشے کے بغیر بن رہی ہیں۔سرکاری عمارتوں کو بناتے وقت بھی نقشے کا خیال نہیں رکھا جاتا اس وقت شاہی مسجد روڈ پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر کے دفتر کی نئی عمارت بن رہی ہے اندر100آدمیوں کی گنجائش ہے سڑک پر ایک بھی گاڑی یا موٹر سائیکل کے لئے پارکنگ کی سہولت نہیں۔ڈی سی ہاوس جانے والی سڑک کے ہسپتال موڑ پر ڈی سی آفس کی دومنزلہ عظیم الشان بلڈنگ تعمیر ہوچکی ہے اس کے اندر150آدمیوں کی جگہ ہے۔باہر ایک بھی گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں۔اگر نقشہ ہوتا تو تہہ خانے میں کم از کم 20گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ ہوتی ۔سابقہ حکومت نے87کروڑ روپے کی لاگت سے 2009میں چترال بازار کے بائی پاس روڈ پرکام کی منظوری دی بائی پاس روڈ کی تعمیر کے بعد بھی ٹریفک اور پارکنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے بازار کے بعض حصوں کو ’’نوگوایریا‘‘ قرار دیا ہے۔بعض جگہوں پر ون وے کا قانون لگایا ہے۔شاپنگ بیگ پر پابندی لگائی ہے،متبادل کاکوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔حکام کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا حکم ہے اور ہم چترال میں تجربہ کرکے اس کو پورے صوبے کے لئے مثال بنائینگے۔

جب قانون کی بات آتی ہے تو پہلا تجربہ چترال کے پُرامن لوگوں پر کیا جاتا ہے،جب مراعات کی بات شروع ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے مراعات اُس ضلع کے لوگوں کو دیدو ،جہاں بدامنی ہے۔وزیر اعلیٰ نے ریسکیو 1122کا اعلان کیا۔دوسال گذرنے کے بعد صرف چند گاڑیاں آئی۔نہ دفتر ہے نہ عملہ ہے نہ کوئی سہولت ہے۔حکومت نے دوسرے بہت سے اعلانات کئے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔بازار میں واش روم بنانے کا اعلان ہوا،کام نہیں ہوا،بازار کو سٹریٹ لائٹ دینے کا اعلان ہوا،کام نہیں ہوا،بازار کی نالیوں کو پختہ کرنے کا اعلان ہوا،کام نظر نہیں آیا۔بازار کے لئے مستقل عملہ صفائی مقرر کرنے کا اعلان ہوا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔جہاں فرائض ہوتے ہیں وہاں حقوق بھی ہوتے ہیں۔حکومت تاجروں کو تحفظ اور حقوق نہیں دیتی مراعات نہیں دیتی۔آگ لگنے سے کروڑوں کا نقصان ہوجائے تو انتظامیہ دوپیسے کی امداد نہیں دیتی۔فرائض پر زور دیتی ہے۔تجربہ کرنے کے لئے قوانین کا ذکر ہوتا ہے۔پھر ہرقانون بھتہ خوری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتبار کمزور ہوجاتا ہے۔تاجر برادری اور عوامی حلقوں میں اس وجہ سے تشویش پائی جاتی ہے۔ایسا نہ ہوکہ صوبے کا سب سے پُرامن ضلع بھی ہڑتال اور مظاہروں کی لپیٹ میں آجائے۔آج کل چترال ٹاون پر رحمان بابا کا وہ شعر صادق آتا ہے جس کا ترجمہ کہ حکمرانوں کے ظلم وستم کی یہ حد ہے کہ ہمارا مسکن قبر کے عذاب اور دوزخ کا منظر پیش کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں