278

داد بیداد ۔۔۔۔میرا پہلا جمعہ ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

66 سال کی عمر میں یہ پہلا جمعہ تھا جب میں نے مولا نا صاحب کو حقوق العباد اور معاشرتی فرائض پر تقریر کرتے سُناورنہ پاکستان ہو یا دوحہ، لندن ہو یا فرینکفرٹ ، کٹھمنڈو ہو یا بنکاک ، بیجنگ ہو یا شنگھائی ، کابل ہو یا اسلام آباد ، جمعتہ المبارک مسلمانوں کا ہفتہ وار اجتماع کا دن ہوتا ہے اس دن مولانا صاحب کو نمازیوں سے خطاب کے لئے کم از کم 30منٹ کا وقت ملتا ہے آدھ گھنٹے کی تقریر میں اسلام کے بنیادی عقائد، بنیادی تعلیمات اور مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داریوں پر کوئی بات نہیں کرتا پاکستان کے اندر فرقہ ورانہ اختلافات اور سیاسی مسائل پر بات ہوتی ہے یہاں تک سیاستدانوں اور افیسرون کا نام لیکر ان کی تعریف کی جاتی ہے یا ان پر تبرّیٰ کیا جاتا ہے بیرون ملک علماء کے موضو عات عموماََ فحاشی اور بے راہروی کے گرد گھومتے ہیں اہلِ کتا ب اور مشرکین کے عقائد پر بحث کی جاتی ہے ایک عام نمازی مولانا صاحب کی 30منٹ کی تقریر سے کوئی سبق لیکر مسجد سے باہر نہیں آتاایک بار تو ایسا واقعہ ہوا کہ مولانا صاحب نے آیاتِ کریمہ اور احادیث مبارکہ کی مدد سے ایک درمیانی درجے کے افیسر کی تعریف کی مسجد سے باہر آکر ایک نمازی دوسرے نمازی سے پوچھ رہا تھا کہ کیا یہ آیتیں مذکورہ افیسر کے آنے کے بعد نازل ہوئی ہیں ؟ مولانا صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ منبر رسول ﷺ پر بیٹھ کر کتنی احتیاط کرنی چاہیئے ۔ یہ میرا پہلا جمعہ تھا جب میں نے ایک عالم دین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے معاشرتی اور سماجی فرائض پر واضح بات کرتے ہوئے سُنا مولانا صاحب نے کہا ہم سے ہر شخص کہتا ہے کہ میرا حق دیدو یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے یا نہیں ؟ جس بندے نے پھوپھی ، بہن اور بیٹی کو میراث میں حصہ نہیں دیا وہ اپنی بیوی کی میراث کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوا نظر آتا ہے اسلام کی تعلیمات ادھوری نہیں حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہیں حضرت اُبیّ بن کعبؓ مشہور صحابی تھے عہدہ قضا پر فائز تھے ان کے سامنے ایک صحابی اور تابعی کا مقدمہ آیا تابعی نے صحابی سے زمین خریدی تھی ہل چلاتے ہوئے دیکھا کہ زمین کے اندر سونے جواہرات کا قیمتی خزانہ ، کنز یا دفینہ رکھا ہوا ہے انہوں نے سونے جواہرات کا خزانہ صحابی کوپیش کیاکہ میں نے زمین خریدی زمین کی قیمت ادا کی اس خزانے کا نہ بیع ہوا، نہ سند لکھی گئی نہ قیمت ادا ہوئی صحابی نے لینے سے انکا ر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زمین فروخت کی ہے اس میں جو کچھ ہے وہ تمہارا حق ہے یہ تمہاری روزی ہے دونوں میں اس بات کا جھگڑا ہوا تو دونوں قاضی کے پاس گئے ہر ایک نے اپنی عرضی بیان کی قاضی نے مقدمہ سننے کے بعد دونوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا ، تابعی کے گھر میں بیٹی تھی صحابی کا بیٹا تھا قاضی نے کہا دونوں کا نکاح کرو تم یہ سونے جواہرات اپنی بیٹی کو جہیز میں دیدواس طرح مال تیسرے فریق کے ذریعے زمین کے اصل مالک کو مل گیا خریدار اپنے فرض سے سبکدوش ہوا ۔ یہ ذمہ داری کا احساس تھا جو قرنِ اوّل میں عام تھا ہم لوگ حق مانگنے میں شیر ہیں حق دینے اور اپنا فرض ادا کرنے میں شتر مرغ سے بھی بدتر ہیں معاملہ اجتماعی ہو یا انفرادی ہم اپنی ذمہ داری پر توجہ نہیں دیتے دوسروں کی ذمہ داریوں پر بات کرتے ہیں حق دیتے نہیں حق لینے پر زور دیتے ہیں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دارلعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم بھی تھے اور مدرس بھی تھے اُن کی تنخواہ 10روپے ماہانہ سے بڑھا کر 15روپے ماہانہ مقرر کی گئی تو انہوں نے 5روپے واپس کرتے ہوئے مجلس منتظمہ کو خط لکھا اُس میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا کہ جوانی میں میرے کام کے اوقات بھی زیادہ تھے کام بھی بہت کرتا تھا اب میرے کام کے اوقات بھی کم کردئیے گئے ہیں صرف نجاری شریف کا درس ہے اور میں زیادہ دیر تک کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہا اس لئے 5روپے کی اضافی تنخواہ واپس لی جائے ایسی بے شمار مثالیں ہیں ہمارے نامور اسلاف نے حق لینے سے پہلے فرض اد کرنے پر اور اس کی عملی مثال قائم کی ہے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں ایک ایسا وقت آیا جب کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہا یہ خوشحالی اور امیری کا مظاہرہ نہیں تھا یہ فرض ادا کرنے کا مظاہرہ تھا حق ادا کرنے کا مظاہرہ تھا ہماری عدالتوں میں میراث کے مقدمات کی بھرمار کیوں ہے ؟ ہم گھر میں بیوی کو خوش رکھنے والے مسلمان کو زن مرید کا طعنہ کیوں دیتے ہیں ؟ یہ اسلامی تعلیمات سے بے خبر اور لاتعلق ہونے کے مظاہرے ہیں بنی کریم ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی اہلیہ کو خوش رکھو اس کو راحت دو، سکون دو، ہم اس شخص کو پہلوان سمجھتے ہیں جو بیوی کو تکلیف دیتا ہو نبی کریم ﷺ نے تعلیم دی ہے کہ میراث کے حقداروں کو میراث میں ان کا حصہ مانگنے سے پہلے ادا کرو ہمارے پاس میراث کے حقدار مانگنے آتے ہیں تب بھی ہم نہیں دیتے وہ عدالت جاتے ہیں تو ہم عدالت میں بھی اپنی ضد سے باز نہیں آتے یہاں تک کہ وہ عدالتی حکم کے ذریعے اپنا حق چھین لیتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ عمر بھر کے لئے قطع تعلق کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ہمسایے کے حق کے بارے میں اتنی تاکید فرمائی کہ صحابہ کرامؓ کو وہم ہوا کہ کہیں ہمسایے کو میراث میں حصہ دار نہ ٹھہرائیں ہم اپنے پڑوسی کو تکلیف دے کر فخر محسوس کرتے ہیں مولانا صاحب نے نمازیوں کو تاکید کی کہ معاشرتی فرائض ادا کرنے والے بن جائیں حقوق ادا کرنے والے بن جائیں تو دنیا بھی جنت کا نمونہ بن جائیگی اور آخرت میں بھی جنت ملے گی یہ میرا پہلا جمعہ تھا جب میں نے مولا نا صاحب کی تقریر کا لطف اُٹھایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں