450

جاوید چوہدری کی خدمت میں! اظہرشاہ ستوریانی

 یہ بات مسلم ہے کہ امت مسلمہ اس وقت بہت سی مشکلات کا شکار ہے، ہر طرف سے حوادث اور مشکلات نے جکڑا ہوا ہے، ان مشکلات میں جتنا غیروں کا ہاتھ ہے اس سے کئی گنا زیادہ اپنوں کا ہاتھ بھی ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ آپس کے اختلافات ہیں، اس وقت مسلمان تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ دو اور طبقوں میں بھی تقسیم ہیں، ایک مذہبی طبقہ ،دوسرا سیکولر طبقہ ، جن کے درمیان اکثر و بیشتر کشمکش چلتی رہتی ہے، سیکولر طبقہ جو کہ یورپ سے بہت زیادہ متاثرہے وہ قدم بہ قدم یورپ کی مدح سرائی کرتا نہیں تھکتااوریہ لوگ بات بات پر یورپ کی مثال دیتے نہیں شرماتے۔
اس مرتبہ تو حد ہی کردی ہے۔ ایک معروف و مشہور دانشور نے تو اسلام کی شاندار اور جاندار تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تاریخ اسلام کو خون ریزی اور قتل و غارت گری سے تعبیرکیا ہے۔
ایک نجی چینل کے اینکر اور روزنامہ اخبارکے مشہور کالم نگار جناب جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں : ہم نے چودہ سو سالوں میں کیا کیا، ہم نے جنگوں، لڑائیوں اور حرام خوری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ آپ 2018 سے ہزار سال پیچھے جائیں تو آپ کو محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ کرتا نظرآئیگا، آپ کو عرب میں لاشیں بکھری پڑی نظر آئیں گی۔
محترم !آپ کو اگر عیسائیت کے بجائے اسلام سے عقیدت اور محبت ہوتی تو آپ کبھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے قربانی دینے والوں کی قربانیوں کا یوںمذاق نہ اڑاتے، آپ کبھی ان کی بے لوث قربانیوں کو فساد اور حرام خوری قرار نہ دیتے۔جانے کیوں یہ سطوررقم کرتے ہوئے آپ کو اسلام کی عفو و درگزر سے بھرپورتاریخ نظر نہیں آئی، آپ کو فتح مکہ یاد نہ آیا، آپ کو صلح حدیبیہ کی ناموافق شرائط پر دستخط کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نظرنہ آئے، وادیٔ طائف میں لہولہان رسول صلی اللہ علیہ و سلم نظر نہ آئے جو اللہ کا حکم لانے والے جبرائیل علیہ السلام سے اپنے دشمنوں کو بچانے کے لیے سفارش کرتے رہے۔
 آپ شاید یہ بھول گئے کہ تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ قتل و غارت یورپ اور امریکہ نے کئی ہے ، جنگ عظیم اول میں دو کروڑ جبکہ جنگ عظیم دوئم میں پانچ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے، ان جنگوں کی گ بھڑکانے والے ممالک کوئی اور نہیں بلکہ یہی یورپی دہشت گرد ممالک تھے، دانشور صاحب آپ یہ بھول گئے کہ تاریخ انسانی میں سب سے پہلے ایٹم بم امریکہ نے استعمال کیا، ہیروشیما، ناگاساکی میں لاشوں کے ڈھیر لگانے والے یورپ کے دہشت گرد نہیں تو اور کون تھے۔عراق، شام، مصر، افغانستان،سیریا میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے کوئی اور نہیں، بلکہ یہ یہی یورپی دہشت گرد ہیں، جن کا کام دنیا میں فساد برپا کرکے، ملکوں کو آپس میں لڑا کر اپنا اسلحہ بیچنا اور اپنے مفادات حاصل کرنا ہے، جو زمین کو پرامن ہونے کے بجائے جنگ زدہ دیکھنا چاہتے ہیں –
 دانشور صاحب آگے لکھتے ہیں : ہم مسجدوں میں یہودیوں کے پنکھے اور اے سی لگاکر، عیسائیوں کی ٹونٹیوں سے وضو کر کے، کافروں کے ساؤنڈ سسٹم پر اذان دے کر ان سب کی بربادی کے لیے بدعائیں کرتے ہیں، آگے  چار پانچ سطورکے بعد خود تسلیم کرتے ہیں کہ: جنگ عظیم اول سے قبل پورا عرب ایک تھا، یہ خلافت عثمانیہ کا حصہ ہوتا تھا، یورپ نے 1918 میں عرب کو 12 ملکوں میں تقسیم کردیا۔آپ کی اس عبارت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یورپ امت مسلمہ کا دشمن ہے اور یورپ نے امت مسلمہ کو فرقوں اور ٹولوں میں تقسیم کیا ہے تو پھرامت مسلمہ کی بددعاؤں سے کیوں تکلیف ہوتی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ اپنے دشمن کے لیے دعائیں نہیں کی جاتیں،وہ بددعاؤں ہی کا مستحق ہوتا ہے۔
دانشور صاحب” امت مسلمہ کی ناکامی” کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہم نے کیا چیز ایجاد کی ہے، ہم نے پانچ سو سال سے دنیا کو کوئی دوا، کوئی ہتھیار، کوئی نیا فلسفہ، کوئی اچھی کتاب اور کوئی اچھا قانون نہیں دیا۔ دانشور صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا قرآن مجید کتاب کامل نہیں؟ اس کتاب کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے لیے کسی اور قانونی کتاب کی ضرورت ہے؟ کیا اسلام کامل واکمل قانون حیات نہیں؟ ان سے بڑھ کر دنیائے یورپ کے پاس کوئی کتاب ،کوئی قانون موجود ہے، کیا یہ ہرشعبۂ زندگی کے لیے ایک کامل و اکمل دستور حیات نہیں، کیا قانون اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور قانون کی ضرورت ہے؟  یورپ اور امریکہ کے بنائے ہوئے قوانین سے انصاف کی آس لگانے والوں کی زندگیاں تو ختم ہوجاتی ہیں مگر یورپ کے قانون سے انصاف کی توقع عبث ہے۔
آگے دانشور صاحب ”چور مچائے شور” والی کہاوت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہمارے نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ اگر ان کے بوڑھے والدین کی دیہاڑی نہ لگے،تو اس دن ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔ دانشور صاحب!یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ملک کے دولت کس کے پاس ہے، ان غریب نوجوانوں کا یہ حال کیوں ہے؟ ان کے گھر میں فاقے کیوں پڑتے ہیں؟ ان کو تعلیم اور روزگار مہیا کیوں نہیں ؟ کاش کہ ان غریب نوجوانوں سے گلہ کرنے کے بجائے ذرا ان بڑے مگرمچھوں سے پوچھ کیا ہوتا، جنہوں نے پورے ملک کی دولت کو لوٹ لیا ، جن کی کرپشن اور بدعنوانیو ںنے غریب عوام کا جینا محال کردیا، جنہوں نے غریب عوام کے پیسوں سے بیرون ممالک میں عالی شان محل بنا لیے ، جنہوں نے تعلیم و تدریس کو غریب کی پہنچ سے دور کردیا۔ اگر کوئی غریب تعلیم حاصل کر بھی لے، ڈگری حاصل کر بھی لے ،تو رشوت کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے غریب در در کے ٹھوکرین کھا کر بھی اپنا جائز حق حاصل نہیں کرپاتا،دوسری طرف امیروں کی اولاد جعلی ڈگریاں بنوا کر، رشوتیں دیکر نوکریاں حاصل کرلیتی ہے۔
آخر میں حسب معمول اس معاشرے کے سب سے زیادہ مظلوم طبقے پر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے لکھتے ہیں: آپ ہمارے علما کی تقاریر سن لیں  جو اپنے مائیک کی تار ٹھیک نہیں کرسکتے، جو اپنا پیغام اپنے مریدوں تک مارک زکربرگ کی فیس بک کے ذریعے پہنچاتے ہیں، جو لوگوں کو تھوکنے کی تمیز تک نہیں سکھاسکے، ان کی تقاریر سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ نعوذبااللہ! پوری کائنات کا نظام مولانا اللہ دتہ چلا رہے ہیں۔
 دانشور صاحب! مدارس میں سائنس، بیالوجی اور ٹیکنا لوجی کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ یہ تعلیم تو کالج اور یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے، انجینئر اور ڈاکٹر پیدا کرنا توکالج اور یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ مدارس اور مساجد کی، دانشور صاحب ایٹم بم بنانا اور سائنس پر ریسرچ کرکے جدید ہتھیار بنانا کالج اور یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہیں، مدارس کی ذمہ داری حفاظ کرام و علمائے کرام تیار کرنا ہے، جو کہ مدارس احسن انداز میں تیار کررہے ہیں، آپ کے کالج اور یونیورسٹیاں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں، جب کہ مدارس ، ایک روپے کا بجٹ نہ ہونے کے باوجود صرف پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے جید علما ئے کرام، مفتیان عظام اور حفاظ کرام پیدا کررہے ہیں، جو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کی دینی راہنمائی کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں