335

رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے ….مقصود عالم رفعتؔ

رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے

جہاں جہاں بھی چلے ہم صدافتخار چلے

۔

پھر آج کوچہِ جاناں سے سوگوار چلے

وہ بیقرار جو آئے تھے بیقرار چلے

۔

لکیریں ہاتھوں کی تدبیر سے بدل ڈالیں

یوں اپنے بگڑے مقدر کو ہم سنوار چلے

۔

چلو سکون سے مدفن میں اپنے سوئیں گے

کہ بوجھ زیست کا ہم سر سے آج اتار چلے

۔

مچل رہی ہے سماعت تڑپ رہا ہے دل

“کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے”

۔

یہاں سنبھل کے قدم رکھنا راہ عشق ہے یہ

کہ تخت وتاج لٹا کر یاں تاجدار چلے

۔

ہر ایک گل ہے فسردہ سا گلشن دل کا

اب آبھی جائیے کچھ موسم بہار چلے

۔

ہمارا مشق سخن میں بھی دل نہیں لگتا

چلے بھی آؤ کہ شعروں کا کاروبار چلے

۔

ہو چاہے رزم محبت کہ جنگ کا میداں

کہ ہم جہاں بھی چلے بن کے شہسوار چلے

۔

یوں ہی نہیں ہمیں حاصل ہوئی یہاں رفعت

کہ ہم برہنہ پا شعلوں پہ بار بار چلے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں