297

کپتان کا دعویٰ (پروفیسررفعت مظہر)

2013ء کے عام انتخابات سے پہلے کپتان نے دو تہائی اکثریت لینے کے بلندبانگ دعوے کیے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو اُن کے وزیرِاعظم بننے کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔ تحریکِ انصاف، نوازلیگ کا مقابلہ تو خیر کیا کرتی، اُسے تو پیپلزپارٹی نے بھی پیچھے چھوڑ دیا اور پارلیمنٹ میں اپنا قائدِحزبِ اختلاف بھی منتخب کروا لیا۔ ایک غلطی بہرحال میاں نوازشریف سے ہوئی، وہ بڑی آسانی سے خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت تشکیل دے سکتے تھے لیکن اُنہوں نے خیبر پختونخواہ کی حکومت تحریکِ انصاف کے لیے چھوڑ دی (جمہوری تقاضہ بھی یہی تھا)۔نوازشریف کے اتحادی مولانافضل الرحمٰن بہت چیخے چلائے، وہ بھی دراصل اِس چکر میں تھے کہ نوازلیگ کے ساتھ مل کر اپنا وزیرِاعلیٰ منتخب کروالیں اور حکومت کے مزے لوٹیں لیکن میاں صاحب نہیں مانے۔ اگر موقع غنیمت جانتے ہوئے کپتان کے پی کے کو مثالی صوبے میں ڈھال دیتے تو شاید آج وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی کارکردگی کو بنیاد بنا کر انتخابی اکھاڑے میں اُترتے لیکن وہ ’’نیاپاکستان‘‘ تو کجا ’’نیا کے پی کے‘‘ بھی نہ بنا سکے۔
دراصل عمران خاں کو دو تہائی اکثریت کا زعم اُن کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد کی شرکت دیکھ کر ہوا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ لوگ’’ حُبِّ عمران‘‘ میں نہیں ’’حُبِّ میوزیکل کنسرٹ‘‘ میں کھنچے چلے آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مفت کی شراب تو مُلّا کو بھی حلال ہے اور پاکستانی قوم سے بڑی ’’مفت بَر‘‘ کوئی ہے نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بہت عرصہ پہلے قذافی سٹیڈیم لاہور میں کسی نے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام کیا۔ داخلہ وہاں مفت تھااِس لیے لاہور کی ہر سڑک کا رُخ قذافی سٹیڈیم کی طرف ہوگیا۔ ہم بھی وہاں گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سٹیڈیم میں تِل دھرنے کی جگہ تک نہ تھی۔ کپتان نے بھی یہی حربہ اختیار کیا اور ہر جگہ لوگوں کا جَمِ غفیر اُمڈ آیا۔ اِن اجتماعات میں ’’مفتوں‘‘ کی کثیر تعداد نے شرکت کی البتہ ووٹر قلیل۔
کپتان کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے سے سبق سیکھنا چاہیے تھا جہاں ابتدائی ایام میں تو خوب دھوم دھڑکا رہااور وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک سمیت لوگ میوزک کی لَے پر تھرکتے بھی دکھائی دیئے لیکن جونہی مولانا طاہرالقادری اپنے مریدین سمیت ’’داغِ مفارقت‘‘ دے گئے، میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی ختم ہوا تو دھرنے کی ساری رونقیں ٹائیں ٹائیں فِش ہوگئیں ۔ وجہ یہ تھی کہ ’’مفت بَروں‘‘ کی دلچسپی کا کوئی سامان باقی نہیں بچا تھا۔ اُس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ جتنے لوگ کپتان کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہوتے، اُس سے کم تعداد سامعین کی ہوتی۔ اگر سانحہ اے پی ایس پشاور نہ ہوتا تو کپتان کے لیے ’’دردِسَر‘‘ بنے دھرنے سے فرار بھی مشکل ہو جاتا۔ اب ایک دفعہ پھر عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے کپتان پھرعام انتخابات میں بھاری اکثریت کے دعوے کر رہے ہیں۔
ملتان میں خطاب کرتے ہوئے کپتان نے کہا ’’ 2018ء کا الیکشن پی ٹی آئی کا ہوگا جس کے نتائج پہلے سے دے رہا ہوں۔ شریف برادران کے ساتھ اُن کا بھائی زرداری بھی جائے گا۔ نواز تو نکل گیا ،اب شہباز کی باری ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب شیخ رشید کی مصاحبت کا اثر ہے۔ شیخ رشید پیشین گوئیوں کا ’’ہیڈماسٹر‘‘ ہے، یہ الگ بات کہ پچھلے 10 سالوں میں اُن کی کوئی پیشین گوئی سچ ثابت نہیں ہوئی۔ اب ظاہر ہے کہ شیخ رشید کا کپتان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ہونا ہی تھا کیونکہ
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کپتان نے یہ دعویٰ ’’امپائر‘‘ کے اشارے پر کیا ہو کیونکہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، امپائر کے اشارے پر ہی تو ہوتا ہے۔ اِسی لیے میاں نوازشریف نے کہا ’’تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی والے ہمیشہ امپائر کی انگلی دیکھتے ہیں۔ یہ ہمیشہ چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے خواہش مند رہتے ہیں‘‘۔ میاں نوازشریف کا یہ کہنا بالکل بجا، تاریخِ پاکستان اُٹھا کر دیکھ لیجئے، جمہوری قوتوں کو کبھی اقتدار منتقل نہیں ہواالبتہ اقتدار میں شرکت ضرور کروا دی جاتی ہے تاکہ اگر بدنام ہوں تو جمہوری قوتیں اور ’’زورآوروں‘‘ کے دامن پر کوئی داغ نہ لگے۔ میاں صاحب نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ امپائر کی انگلی دیکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت رہی۔ اُس کے دامن پر پہلا داغ اُس وقت لگا جب محترمہ بینظیر نے پرویز مشرف کے ساتھ این آراو کیا حالانکہ اِس سے پہلے وہ میاں نوازشرف کے ساتھ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کر چکی تھیں۔ پھر اِسی میثاقِ جمہوریت کو قوم نے ’’مذاقِ جمہوریت‘‘ میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھا۔
بینظیر کی ناگہانی موت کے بعد ایک جعلی وصیت کو بنیاد بنا کر آصف زرداری پیپلزپارٹی کے کرتا دَھرتا ٹھہرے۔ اُنہوں نے 2008-2013 تک نہ صرف حکومت کے مزے لُوٹے بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ بھی خوب دھوئے۔ کامران خاں اُنہی دنوں میں ’’غضب کرپشن کی عجب کہانیاں‘‘ سناتے نہیں تھکتے تھے۔ جب میاں نوازشریف کے دَورِ حکومت میں اسٹیبلشمنٹ نے رینجرز کے ذریعے آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو زرداری صاحب نے طیش میں آکر وہ بیان دے دیا جس کی بِنا پر اُنہیں خودساختہ جلاوطنی کاٹنی پڑی۔ اُنہوں نے زورآوروں کی ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘‘ کا اعلان کیالیکن ہوا یہ کہ وزیرِاعظم میاں نواززشریف نے اِس معاملے میں نہ صرف اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا بلکہ طے شُدہ ملاقات بھی منسوخ کر د ی جس کی بِنا پر آصف زرداری کو ملک چھوڑنا پڑا۔ باہر بیٹھے غصّے سے کھولتے آصف زرداری بدلہ لینے کے منصوبے باندھتے رہے اور تان یہاں پہ ٹوٹی کہ ’’اَندرکھاتے‘‘ اسٹیبلشمنٹ کے دَرِ دولت پر سجدہ ریز ہوگئے۔ اب وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی،دونوں کے سَروں پر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ ہے اور میاں نوازشریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ۔ بلوچستان میں لیگی حکومت کا خاتمہ، آزاد سینیٹر کا انتخاب اور چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں لیگی اُمیدوار کی ہزیمت، سبھی اسٹیبلشمنٹ کی کرشمہ سازیاں ہی تو ہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف آگ اُگلنے والی پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف یکایک ایک دوسرے کی دِست وبازو بن جاتیں۔
سینٹ میں بھی آصف زرداری، عمران خاں سے ’’ہَتھ‘‘ کر گئے۔ اُنہوں نے اپنا ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروا لیا اور اب سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی منتخب کروانے جا رہے ہیں۔ عمران خاں کے حصّے میں اگر آیا تو صرف بہت بڑا ’’یوٹرن‘‘۔ اب تحریکِ انصاف پیپلزپارٹی کے خلاف لاکھ بیان دے، قوم نہیں مانے گی کیونکہ تحقیق کہ پاکستانیوں کا سیاسی شعور اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ اُنہیں بُرے بھلے کی خوب پہچان ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں