Site icon Daily Chitral

چترال کے گنجہائے گرانمایہ ….علی جبار خان اوی

چترال کی یہ سرزمین جو کہ تریچ میر کے دامن میں واقع ہے اس کی سرحدیں چین ،روس اور آزاد کشمیر سے جاملتی ہیں  ۔ اس نے اپنے سینے میں سینکڑوں سورماؤں کو دفنایا ہے مگر میں یہاں عصر حاضر کے چار نابعہ روزگار ہستیوں ہر چند سطریں لکھنے کی جسارت کرہا ہوں گو کہ طبقاتی ،علاقائی ،مذہبی اور سیاسی لحاظ سے مختلف لوگوں کا ان کے بارے میں رائے مختلف ہوسکتی ہے ۔لیکن چترال کی افق پر لمبے عرصے تک  چمکنے والے ان ستاروں کے رفعت کو آج تک کوئی نہیں چھو سکا۔ان یگانۂ روزگار ہستیوں میں الحاج محمد جناب  شاہ  ،شھزادہ محی الدین،سردار علی سردار آمان اور وقار احمد  کے نام قابل ذکر ہے۔

الحاج  محمدجناب شاہ  مرحوم(سابق وزیر تعلیم)

مرحوم ضلع چترال کے انتہائی دور افتادہ  وادی تریچ سے تریچ میر کے دامن میں واقع گاؤں زوندرانگرام سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ ماژہ خیل قوم کے چشم و چراغ تھے،یہ قوم رئیس دور میں رئیس خاندان کی ایک مشہور رانی اشم بیگم کے ساتھ چترال میں وارد ہوئی تھی۔اسی سنگلاخ وادی سے ایک چنگاری نکل کر پوری وادیٔ چترال کی کونے کونے میں اپنا الاؤ روشن کیا۔آپ کی ذات چترال کی روشن مستقبل کا ستارہ بنی۔وہ غالباً ہزہائی نس سر محمد ناصر الملک کے بعد دوسرے گریجویٹ تھے۔ہزہائی نس مرحوم نے علم کا جو شمع روش کیا تھا اسے گھر گھر پہنچانے کا سہرا مرحوم جناب شاہ صاحب کو حاصل ہے۔مرحوم بحیثیت وزیر تعلیم چترال کے کونے کونے میں اسکول کھول کر علاقے سے جہالت کو مٹانے میں  اہم کردار ادا کیا ۔آج ضلع چترال جو کہ پورے صوبے کے ۲۴ اضلاع میں تعلیم کے میدان میں دوسرے نمبر پر ہے اس میں کلیدی کردار جناب شاہ صاحب ہی کا ہے۔

مرحوم مہترِ چترال کے  ۱۹۳۶ء میں قائم کردہ مڈل سکول چترال سے جونہی طلبہ مڈل پاس کرکے فارع ہونے لگے انہیں گلیوں ،بازاروں یا مسجدوں میں یا ان کے گھر کے پتے پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر درس و تدریس کے پیشے سے منسلک کرکے چترال کے دور افتادہ خطوں میں پرائمری اسکول قائم کرکے نہ صرف خطے میں علم کی روشنی پھیلائی بلکہ ان  خاندانوں کے مستقبل کو بھی روشن کیا۔گو اس زمانے میں بھی تعلیم محکمہ سب سے بڑا محکمہ ہوا کرتا تھا۔سابق ریاست چترال کے پاکستان کے الحاق کے بعد یہاں ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھل گئے تھے  تعلیم کے محکمے میں تقرریوں  کا جال بچھا ہوا تھا دوسرے تمام محکموں میں گودام کلرکوں کے پاس رشوت کے انبار لگ گئے تھے۔تحصیلداروں ،پولیس کے افسران اور محکمۂ تعمیرات عامہ کے عملے کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔مگر صاحب موصوف نے درس و تدریس کے پیشے کو اس حد تک کرپشن سے پاک مثالی ادارہ بنایا کہ جس کی روایت بہت عرصہ بعد تک بھی قائم رہی۔آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی سیرت کو زندہ کرکے اس طرح مثالی کردار ادا کیا کہ کسی استاد کے ہاتھ سے بطور رشوت ایک کپ چائے بھی نہیں پی۔اسکول کے معائنے کے بعد استاد کو یہ ہدایت کی کہ بیٹا جاؤ اپنا اسکول سنبھالو مجھے رخصت کرنے یا چائے پلانے کے لیے نہیں آؤ۔اس زمانے میں سفر کی آج  جیسی سہولتیں نہیں تھیں یہاں تک کہ ندی نالوں اور دریاؤں پر پُل بھی نہیں بنے تھے۔آپ کو ایک وادی سے دوسری وادی جانے کے لئے سنگلاخ پہاڑوں سے گزرناہوتا۔ان پہاڑوں سے گزرتے ہوئے دوربین کے ذریعے اساتذہ کی حاضری کا جائزہ لیتے۔اور یہ معلوم کرتے کہ استاد کس وقت اسکول آتا ہے اور کس وقت اسکول بند کرتا ہے ۔آپ بڑے بڑے تبادلے خود کرتے۔تقرریوں کے آڈر لوگوں کے گھروں میں بھیجتے لیکن اس تمام سرگرمی میں نہ رشوت،نہ سفارش اور نہ ہی رشتہ داروں کا واسطہ ہوتا۔صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تمام کام سرانجام پاتے۔یہ تھا چترال کے محسن اعظم کا کردار۔آپ نے رہتی دنیا ایک مثال قائم کی آپ کے بعد آنے والوں نے بھی اس روایت کو ممکن حد تک قائم رکھا۔لیکن آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ چپڑاسی کے تبادلے کے لیے ڈائریکٹریٹ اور سیکریٹریٹ کا چکر لگانا پڑتا ہے  وہاں ایسے لوگ بیٹھے ہیں کہ پیسہ تو دور کی بات لوگوں کی انٹریاں نکال کر کھانے کے تیار ہوجاتے ہیں۔

شہزادہ محی الدین

۱۹۶۵ اپریل کا مہینہ تھا جب میں گورنمنٹ ہائی سکول بونی میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔اچانک گھنٹی بجا کر تمام بچوں کو گراونڈ میں جمع کیا گیا اس وقت کے پی –ای –ٹی کے استا د مرحوم علی شیر خان سی ٹی بجا کر  تمام بچوں کو الرٹ کیا پتہ چلا ضلع مستوج کے سابق ڈپٹی کمشنر شہزادہ شہاب الدین کی رخصتی ہورہی ہے ۔ان کی جگہ ان کے بھائی شہزادہ محی الدین نیا ڈپٹی کمشنر بن کرآرہے ہیں۔ایک بھاری بھر کم اور قد آور شخصیت کی رخصتی ہوئی اور ان کی جگہ گورے رنگ کا ایک خوبرو نوجوان کے نشست سنبھال  لیا۔اس وقت سے سال ۲۰۱۳ ء کے انتخاب تک وہ مختلف روپ میں چترال کی سیاست پر چھائے رہے ۔ گو کہ پاکستان کے وجود میں آنے اور مختلف ریاستوں کے پاکستان سے الحاق کے بعد چترال کی شخصی حکومت کا یکسر خاتمہ ہوا ۔مگر عوامی آمریت کے ذریعے آپ کی شخصیت بہ دستور برقرار رہی۔آپ کو زیر کرنے کے لیے ہر طرف سے جتن کیے گیے مگر کوئی بھی آپ کا بال بیکا نہ کر سکا۔آپ پر کفر کےفتویٰ بھی لگائے۔ایک  مذہبی پیشوا کا ایلچی بھی کہا گیا ہزار جتن آپ کو ہرانے کا کیا گیا ۔لیکن آپ نے ہر مرتبہ میدان مار لیا۔۱۹۸۵ کے غیر جماعتی الیکشن میں جب آپ کا مقابلہ مرحوم مولانا عبدالرحیم صاحب سے ہو اتو سب ڈویژن چترال کی عوام نے مولانا صاحب کے حق میں اپنا بھر پور اعتماد کا اظہار کیا لیکن جن مستوج اور لٹکوہ کے ریزلٹ آگئے تو پانچ کے مقابلے میں سو اور پچاس کے  مقابلے میں   ہزار کے تناسب سے آپ جیت گئے اس موقع پر مشہور عوامی شاعر مبارک خان کے اشعار کے بول کچھ یوں تھے۔”لٹکوہو انوازو گان مہ لالٹینو بوغیتاؤ” ۲۰۰۸ کے انتخابات میں آپ کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے کیے گئے ۔جماعت اسلامی بائیکاٹ کے باوجود رپردہ پی پی پی کے ناراض گروپ کے ساتھ اتحاد کرکے آپ کے مقابلے میں سردار احمد اے سی صاحب کو سامنے لایا۔مگر اس موقع پر بھی قوم نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔اسی زمانے کا ایک قصہ مشہور ہے کہ کہ کسی جگہ پی پی پی کا ایک سادہ لوح جیالا نے پوچھا کہ پارٹی کا نمائیندہ کون ہے بتایا گیا کہ غلام محی الدین۔مسلم لیگ کا کون ہے تو جواب ملا شہزادہ محی الدین۔ اس جیالے نے برجستہ کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی میں “غلام “محی الدین کو کیوں منتخب کروں جبکہ” آزاد”  محی الدین سامنے موجود ہو۔آپ ایک مایہ ناز سیاستدان ہے۔سیاست دان ہونے کے باوجود جھوٹ کو سچ کا روپ دینا ،ہوائی قلعے بنانا ،دوسروں پر کیچڑ اچھالنا،جو کہ آج کے سیاستدانوں کا وطیرہ ہے لیکن شہزادہ صاحب اس سیاست سے کوسوں دور ہے ۔آپ میں تعصب نا م کی کوئی چیز نہیں ہے۔آپ کے دل میں فقط ایک ہی بات تھی کہ تمام چترالیوں کی بلا امتیاز خدمت کی جائے۔آپ نے کسی کی بھی خوشامد نہیں کی۔جشن ِ شندور کے موقع پر ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹر کے روبرو سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے یوں کہا کہ بڑے سے بڑے کام کی مثال یہ ہے کہ سویر کے مقام پر بم کے متاثرین کے لیے میں نے آپ کے دفتر کا بارہ دورہ کیا لیکن کسی بھی جگہ آپ کے حکم کی شنوائی نہیں ہوئی چھوٹے سے چھوٹے کام کی مثال یہ ہے کہ آپ نے یہ کمانڈنٹ چترال کو حکم دیا تھا کہ چترال سکاؤٹس مین جلد ازجلد ایک ہزار نوجوان بحتی کیے جائیں مگر کمانڈنٹ صاحب وردی  کی تیاری کا بہانہ کرکے   ابھی تک ٹالتے آرہے ہیں۔اگر صاحب موصوف مجھے حکم دیں تو میں ایک دن مین وردی تیار کرلوں گا۔ضیاالحق  جیسے فوجی حکمران سے سامنے یہ کہنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں۔آپ کی سیاست کے تین اہم رہنما اصول یہ ہیں۔آپ نے کھبی بھی کسی کی برائی نہیں کی۔کسی کو بھی برے نام سے یاد نہیں کیا۔کسی کے ساتھ بھی جھوٹ نہیں بولا اور کسی کے ساتح تعصب یا امتیازی سلوک نہیں کیا۔آپ دو دفعہ ہار بھی گئےلیکن اس موقع پر بھی اپنے مخالفین کے حلق کا کانٹا بنے رہے۔جب آپ بینظیر کی حکومت میں ہار گئے تھے۔تو بہت جلد بینظر کی حکومت ختم ہوگئی اور آپ کو نگران حکومت میں چاروں صوبائی وزارتیں سونپی گئی دوسری مرتبہ جب ایم ایم اے کی حکومت آئی تو مولانا عبدالاکبر چترالی کو ٹف ٹائم دیا ۔

آپ نے اپنے طویل دور حکومت میں کبھی بھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا ۔اقتدار اور عہدے کی آپ کی نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ہمہ وقت لوگوں کی خدمت کے لیے حاضر رہتے۔آپ نے کبھی بھی اپنے ساتھ گارڈز رکھنے کو اعزاز سمجھا اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی۔ملنے والے ہر جگہ بلا روک ٹوک آپ سے مل سکتے ہیں۔طویل المعیاد اقتدات کی وجہ سے چترال کے تمام ترقیاتی منصوبے آپ کی ہاتھوں پائہ تکمیل کو پہنچے ۔سڑکیں ،پل، اسکولز،کالجز،ہسپتال،بجلی گھر غرض ہر قسم کے ترقیاتی کام آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ایک لحاظ سے آپ صحیح معنوں  میں چترال کے بلڈر ہے۔لیکن ان تمام کے باوجود آپ کے دور اقتداد کی نمایاں خامی یہ ہے کہ آپ کے دور اقتدار مین ان کرپٹ اور بد عنوان ٹھیکہ داروں کی من مانیاں اپنے عروج کو پہنچی آپ نے کسی بھی موقع پر قومی مفاد کا خیال کرتے ہوئے ان بدعنوان عناصر کی بے جا سرپرستی سے ہاتھ نہیں اٹھایا ۔جس سے چترالی قوم کو سراسر نقصان پہنچا ۔

ایک قائد کی حیثیت  سے آپ کی بے مثال خوبی یہ تھی کہ آپ اپنے والد محترم کے جو انتہائی درویش خصلت  اور صوفی منش انسان تھے کے حد سے زیادہ فرمانبردار تھے ۔گھر سے نکلتے وقت وہ ہمیشہ آپ کو رخصت کرنے کے لیے باہر نکلتے تھے آپ چبوترے سے نیچے اترتے وقت واپس جاکر ان کا ہاتھ چومتے تھےجس پر وہ ہمیشہ آپ کے لیے دعائیں دیتے تھے۔آپ کے شاندار کامیابیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔۲۰۱۳ کے انتخابات میں آپ کے فرزند ارجمند کامیاب ہوئے آپ بھی انتہائی سیدھے سادھے اور ملنسار انسان ہیں۔

وقار احمد صاحب(رجسٹرار محکمۂ تعلیم)

وقار صاحب مرحوم سابق ریاست چترال کے پہلے پرنسپل تھے۔آپ بہت طویل عرصے تک محکمۂ تعلیم چترال کے سربراہ رہے۔کبھی پرنسپل،کبھی ہیڈ ماسٹر اور زیادی عرصہ محکمۂ تعلیم چترال کے افسر اعلیٰ  رہے۔آپ کے شاگردوں کی تعداد چترال میں سب سے زیادہ ہے۔آپ کا تعلق موردیر موڑکھو کے محمد بیگے خاندان سے ہیں۔آپ ایک مثالی اور بااصول  افیسر تھے۔جب بھٹو صاحب کا دور اقتدار آیاتو چترال پر ہر قسم کے ترقی کے دروازے کھل گئے۔اسکولوں کا جال  بچھایا جانے لگا۔اس وقت کے تمام ملازمتیں آپ کے ہاتھوں سے تقسیم ہونے لگے۔لاکھوں سلام  اس نظام کو،ہزار آفریں اس افسر کے قدموں کو ،نہ رشتہ، نہ ناطہ،نہ سفارش،نہ رشوت لوگ بلا روک ٹوک عہدوں پر تعین ہوتے جارہے تھے۔یہی وجہ ہے جب ان تمام کو اعلیٰ عہدوں  پر پروموشن کے لیے اے سی آر کی ضرورت پیش آئی تو آپ کے پیچھے لوگوں کی قطاریں لگ گئی۔آپ ایک اصول پسند انسان تھے۔اپنے فرائض کی انجام دہی میں انتہائی سخت تھے۔زبان ترش ہونے کے باوجود آپ کے قلم سے کبھی کو کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔آپ طویل عرصے تک بااختیار افسر ہونے کے باوجود کسی اسکینڈل میں ملوث نہیں رہے۔آپ اپنے پیشرو جناب شاہ صاحب کی طرح اپنے ادارے کو کرپشن سے پاک  رکھا۔اتنے بڑے افسر ہونے کے باوجود آپ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔لوگ آپ کو کنجوس خیال کرتے تھے ۔لیکن یہ آہ کی سادگی تھی  اپنے لیے گاڑی تک لینے کا خیال نہ ہوا۔آپ ڈاٹسن کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر بازار سے بکر آباد تک جاتے ۔آپ جیسے تین اور افسر چترال کو میسر ہوتے تون ان ماتحت سدھر جاتے۔

سردار علی سردار آمان(سابق ڈائیریکٹر جنرل ڈاکخانہ جات)

سردار علی المعروف پی ایم جی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل دور کا نام ہے یہ ایک فلاحی ادارے کا نام ہے جس کے طفیل ہزاروں گھروں کے چولہے گرم ہوئے سیکڑوں ہزاروں خاندانوں کے مستقبل روشن ہوئے۔کسی زمانے میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں ایک شکایتی  بل پیش ہوا کہ صوبہ سرحد میں اعلیٰ عہدے پر ایک ایسا افسر بھی ہے جس کے سامنے اہلیت  اور تجربے کی اہمیت ثانوی ہے اس کے لیے میرٹ صفر چترالی ہونا ہی ہےوہی افسر تھے یہی سردار علی جو اس پسماندہ اور دور افتادہ عوام کے لیے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے۔آپ نے زوندرے قوم کی ایک ترقی یافتہ اور انقلابی شاخ میں آنکھ کھولی۔آپ کے والد انتہائی زیرک اور دور اندیش انسان تھے اس زمانے میں جبکہ چترال میں کوئی بھی تعلیم  کی افادیت سے واقف نہیں تھا آپ کے والد نے اس قیمتی ہیرے کو مزید چمکدار بنانے کے بمبئی لے گئے۔وہاں آپ نے اس زمانے کے دو مشہور اسکولوں  سینٹ میری ہائی اسکول اور ڈائمنڈ ہائی اسکول  سے تعلیم حاصل کی ۔۱۹۵۱ میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری حاصل کی ۔۱۹۶۰ میں آپ نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے ڈویژنل سپرنڈنڈنٹ مقرر ہوئے۔آپ کے والد محترم کوئی بڑے جاگیردار وغیرہ نہیں تھے لیکن اللی تعالیٰ نے بصیرت عطا کی تھی  آ پ نے اپنی قلیل آمدنی سے اپنا خون چوس کر اپنے پانچ بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے نواز جن میں سے سردار علی کی ذات سرفہرست ہے۔آپ غالباً چترال کے پہلے سی ایس ایس افیسر ہیں۔آپ ۱۹۶۰ سے  ۱۹۹۵ تک چترال سے باہر ڈاکخانے کے مختلف عہدوں پر کام کیا یہاں پربیان کرنے کا مطلب آپ کی قابلیت اور عہدے سے نہیں بلکہ آپ کی شخصی کردار اور انسانیت کی گرانقدر خدمات ہے۔گو کہ چترال سے دوسرے بہت سے فرزند بڑے بڑے عہدوں تک پہنچ چکے ہیں یہاں تک ریری اور اویر سے ایک بیٹا خورشید علی خان گورنر بھی رہ چکا ہے۔لیکن کسی کو یہ بات پتہ ہی نہیں۔شروع شروع میں آپ کراچی میں قدرے کم عہدے کے افیسر تھے لیکن پورے سندھ کے جس ڈاکخانے میں آپ جائے آپ کو چترالی ملازم ضرور ملے گا۔یہ آپ نے کسی کو اپنے ہاتھوں سے کسی کو اپنے ماتحتوں کے ذریعے کسی کو دوستوں کے ذریعے کسی کو دوستوں کے دوستوں کے ذریعے اور جانے پہچانے لوگوں کے ذریعے کراتے تھے۔سب کو اندازہ ہوگا کہ چترال کے ان پسماندہ لوگوں کو سندھ کے ڈومیسائل پر سرکاری ملازمت دینا کتنا مشکل ہوگا۔اس سے ہر ایک کو یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کے دل میں چترالیوں کے لیے کتنا درد تھا،اس زمانے   میں کا لجوں  براہ راست داخلہ کرکے تعلیم حاصل کرنا کسی کے بس کی بات نہ تھی ۔اکثر طلباء صبح کی شفٹ میں کام کرکے نائٹ شفٹ میں کالجوں میں داخلہ لیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ چترال بالخصوص سب ڈویژن مستوج اور لٹکوہ کے تمام اعلیٰ افسراں اس دور کی پیداوار ہیں۔جن میں اکثریت ڈاکخانے کی ملازمیں ہیں۔بعد آزاں آپ پشاور آئے اور یہاں صوبے کے کونے کونے میں یہاں تک کہ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں بھی آپ کے بھرتی کیے ہوئے ملازمین موجود ہیں۔بعد آزان ان تمام ملازمین کو چترال ٹرانسفر کرنے میں آپ نے اپنا بھر پور اثرو رسوخ استعمال کیا ۔اتنی زیاد خدمات کے باوجود کسی جگہ بھی تعصب ،سفارش اور رشوت کا کوئی سیکنڈل نہیں یہ سب کچھ انسانی خدمت کے اعتراف میں کی گئی ہیں۔سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ میں آکر  اپ نے چترال کے کونے کونے میں ڈاکخانوں کا جال بچھایا ۔برانچ ڈاکخانے تو گھر گھر میں بنائے ان تمام ملازمیں کی مراغات  بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ تھیں۔میرا چھوٹا سا گاؤں منڈاغ آوی جس کی آبادی ۵۰ گھرانوں پر مشتمل ہے اس میں بارہ ملازمین آپ کے ہاتھوں سے بھرتی ہوئے ہیں۔یہی حالت سب جگہوں میں ہیں۔مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک مرتبہ پی پی پی کے ٹکٹ پر آپ الیکشن لڑنے کے لیے اس قوم کے سامنے آگیا  ۔لیکن حالات ناموافق ثابت ہوئے ایک طرف پرویز مشرف کا طوطی بول رہا تھا اس کا نمائیندہ سامنے آیا دوسری طرف صوبہ سرحد کے پی کے میں ایم ایم اے کا اتحاد سامنے آیا۔اور یہ طوفان سب کو بہا کر لے گیا۔اور قوم اس چیلنچ کا مقابلہ نہ کرسکی۔ آپ اپنے احسان فراموشی کا بہترین ثبوت پیش کیا ۔آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں  اور ان سب میں آپ کے اعلیٰ  اخلاق اور کردار کی جھلک موجود ہے۔

Exit mobile version