204

داد بیداد۔۔۔۔ٹیسٹ ٹیوب پارٹی۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

ٹیسٹ ٹیوب بے بی دنیا بھر میں جنیاتی سائنس کا عجو بہ خیال کیا جاتا ہے اگر ماں کی استعداد میں بچے کو پیٹ میں زندہ رکھنا ممکن نہ ہو تو بچے کو رحم مادر سے ٹیسٹ ٹیوب میں منتقل کر کے 9 ماہ9 دن اس کی پرورش کی جاتی ہے پھر وہ آنکھیں کھول کر دنیا میں آجاتا ہے اور ہنستا،بستا،چلتا پھرتا بچہ بن جاتا ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 1949 ؁ ء میں پہلی ٹیسٹ ٹیوب پارٹی پیدا ہوئی جس کو ری پبلکن پارٹی کانام دیا گیا اس کے بعد پاکستان اس شعبے میں خود کفیل ہو گیا اب پاکستان دنیا میں ٹیسٹ ٹیوب پارٹیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے سینئر کا لم نگا ر محمو د شام نے انکشاف کیا ہے کہ 2002 ؁ ء میں متحدہ اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم منتخب کرنا چاہتی تھی لیکن حکومت نے ارکان اسمبلی پر دباؤ ڈالا ،ڈاکٹر طاہر القادری اور اعجاز الحق بھی دباؤ میں آگئے مگر عمران خان دباؤ میں نہیں آئے عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دے کر اپنی غیر ت کا مظاہر ہ کیا مولانا فضل الرحمن ایک ووٹ سے ہار گئے اعجازالحق اور طاہر القادری ووٹ دیتے تو مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم بن سکتے تھے اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ حکومت کسی پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے کس قدر زور لگاتی ہے اور اپنی مرضی کے نتائج کس طرح حاصل کرتی ہے منتخب وزیر اعظم میر ظفرا للہ جمالی جس پارٹی کے نامزد تھے وہ پارٹی راتوں رات بن چکی تھی مولانا فضل الرحمن جس پارٹی کی طرف سے نامز د ہوئے وہ بھی کئی راتوں کی محنت سے وجود میں آئی تھی گویا دو ٹیسٹ ٹیوب پارٹیوں کے درمیاں مقابلہ تھا مقابلے کے آخری راونڈ میں حکومت نے اپنا وزن ایک ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کے پلڑے میں ڈالا تو وہ جیت گئی 1977 ؁ء اور 1988 ؁ء کے درمیانی عرصے میں کئی ٹیسٹ ٹیوب پارٹیاں وجود میں آگئیں ان کا مقصد پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا تھا حکومت کے وسائل ٹیسٹ ٹیوب پارٹیوں پر ضائع کئے گئے وقت بھی ضائع کیا گیا 2018 ؁ ء کے الیکشن قریب آتے ہی ایک بار پھر ٹیسٹ ٹیوب پارٹیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے سوشل میڈیا کے ذریعے شو شہ چھوڑا جاتا ہے پھر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس کو اُچھالا جا تا ہے شو شہ یہ ہے کہ ملک کی مقبول سیاسی جماعتیں حکومت میں نہیں آسکتیں اگر ملک مقبول سیاسی طاقتیں حکومت میں آگئیں تو پاکستان تباہ ہو جائے گا اس لئے مصنوعی طریقے سے نئی پارٹی بنائی جائے اور ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کو اقتدار میں لا یا جائے تو ملک اور قوم کا بھلا ہو گا 2002 ؁ء میں ارکان اسمبلی کوقائل کیا گیا تھا کہ خدا نخواستہ مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم بن گئے تو امریکہ ناراض ہو جا ئے گا امداد روک دے گا عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے حکام روٹھ جائینگے معیشت تباہ ہو جائے گی آج پھر ہمیں باور کرایا جارہا ہے کہ تم جن لو گوں کو ووٹ دیتے ہو وہ کا میاب ہو گئے تو امریکہ روٹھ جائے گا یورپی یونین اپنا دست شفقت ہمارے سر سے اُٹھا لے گا پھر ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے اس صورت حال سے بچنے کے دو طریقے ہیں پہلا یہ ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کو ووٹ دو اگر یہ ممکن نہیں تو پھر انتخابات نہیں ہو نگے نگران حکومت کو قومی حکومت کا نام دیا جائے گا اور اگلے چند سالوں تک انتخابا ت نہیں ہو نگے جب قوم کو عقل آئیگی ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کو جتوانے کے امکانا ت پید ا ہونگے تو ہم ’’ آزادانہ‘‘ غیرجانبدارنہ ‘‘ انتخابات کر ائینگے اور اپنی پارٹی کو کامیاب ہو تا ہوا دیکھینگے تجزیہ نگاروں نے 1980 ؁ ء کی دہائی کا جامع اور مربوط نقشہ کھنچا ہے وہ بھی بہت تکلیف دہ دہائی تھی اُ س دہا ئی میں ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو ہر انا تھا ہم نے محمد خان جو نیجو اور الطاف حسین کے ذریعے اس کا م کو انجام دیا بہت جلد ایک مرحلہ آیا جب پیر پگا ڑا نے جو نیجو کو ہمارے مقابلے میں لا کر کھڑا کیا ہم نے جو نیجو کی جگہ نواز شریف کو ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کا سربراہ بنا یا وقتی طور پر جو نیجو اور بے نظیر بھٹو کا توڑ ہمارے ہاتھ آیا اس کو دیر پا حیثیت دینے کے لئے ہم نے الطاف حسین کی طرح نواز شریف پر بھی سرمایہ لگا یا اب معلوم ہو تا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی 20 سال بعد پتہ لگیگا کہ ہم سے پھر غلطی ہو گئی دراصل ٹیسٹ ٹیوب پارٹیو ں کے کاروبار میں نقصان ہی نقصان ہے وطن عز یز میں تین چیزوں پر سودا بازی نہیں ہو سکتی اسلام ، وطن اور جمہو ریت اسلا م کے مقابلے میں کسی دوسرے نظر یے کا پر چار نہیں ہو سکتا یہ مسلمہ اصول ہے جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی گنجا ئش نکالنا محال ہے اس پر وقت اور سرمایہ ضائع نہیں کر نا چاہیے اس طرح وطن کی سلامتی پر سو دے بازی نہیں ہو سکتی اور یہ تینوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی ہوئی ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی توانا ئیاں ٹیسٹ ٹیوب پارٹیاں بنا نے اور ان کو توڑ نے پر کیوں صرف کر تے ہیں 1986 ؁ء کی دہا ئی میں جو غلطیاں ہو ئی تھیں 2000 ؁ء کی دہا ئی میں پھر وہی غلطیاں کیوں دہر ائی گئیں؟ اور اب 2018 ؁ء میں ایک بارپھر کیوں دہر ائی جارہی ہیں ؟اگر موجود ہ آئین میں مسائل کا حل نظر نہیں آتا تو کیوں نہ ہم بیٹھیں اور چین، روس یا ایران کی طرح کا انتخابی طریق کار وضع کریں جس میں رائے عامہ کو مہذب طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے اس کنٹرول میں مداخلت کاری کا الزام کسی پر نہیں لگتا ایک نہ ایک دن ہمیں طے کر نا ہوگا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر یں یا امریکہ اور بھارت کی طرح عوامی رائے کا احترام یا روس، چین اور ایران کی طرح عوامی رائے پر مہذب طریقے سے آئینی کنٹرول حاصل کریں۔ پشتو کا شاعر سیف الملو ک صدیقی نظم مستزاد میں کہتا ہے
یامی د زان سر ہ زان کڑہ چہ اوشوپُخلا
یا داسر می قلم کڑہ چہ اونہ کڑی ندا
یا دااوکڑہ یا دا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں