242

تحریک انصاف کا پانچ سالہ دوراقتداراوراگلے انتخابات۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

موجودہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں اپنی پارلیمانی مدت پوری کرنے میں محض تین سے چاردن کی دوری پر ہیں جس کے بعد نگران وفاقی اورصوبائی حکومتیں قائم ہوں گی جن کی نگرانی میں نئی منتخب حکومتوں کی تشکیل کے لئے عام انتخابات ہوں گے یوں2002سے 2018تک تیسری دفعہ کسی ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدارکی پرامن منتقلی کاعمل پوراہوجائے گا،اگرچہ ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے یہ انتہائی خوش آئند امرہے لیکن اٹھتاسوال یہ ہے کہ کیامنتخب جمہوری حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتیں اپنے اس انتخابی منشورپر عملدارآمد کرانے میں کامیاب رہیں جس کی بنیادپرعوام نے ووٹ دے کر انہیں اقتدارکی باگ ڈورسونپی تھی،2013کے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں تبدیلی کے نعرے کی بنیادپر اکثریتی نشستیں حاصل کرکے پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوامیں مخلوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب رہی اوراب پانچ سالہ پارلیمانی مدت پوری ہونے پراقتدارکی بوریابسترلپیٹ کراگلے انتخابات میں جانے کے لئے پر تول رہی ہے ۔پی ٹی آئی نے پچھلے انتخابی مہم میں عوام سے ڈھیر سارے وعدے کئے تھے جن میں کھیلوں کے فروغ کی غرض سے ہر تحصیل سطح پرسٹیڈیم بنانے سمیت نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات اٹھانے،روایتی تھانہ کلچرتبدیل اورپولیس کو عوام دوست بنانے،تعلیم کی بہتری اوریکساں نظام تعلیم رائج کرنے،عوام کو صحت کی بہتر سہولیات دینے کی غرض سے ان شعبوں میں مؤثراصلاحات لانے،امن وامان کی صورتحال بہتربنانے اوراسے برقراررکھنے کے لئے جامعہ منصوبہ بندی کرنے،بیروزگاری پر قابوپانے کے لئے روزگارکے ذرائع پیداکرنے، صوبے کے مختلف حصوں میں انڈسٹریل زونزبنوانے،صوبے کی معیشت کی بہتری کے لئے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، نئے شہربسانے،جنگلات کاتحفظ یقینی بنانے کے لئے بلین درخت لگانے،صوبے کی ثقافت کوبہتراندازمیں اجاگرکرنے ،محکموں میں قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ختم کرکے مکمل میرٹ قائم کرنے،تونائی بحران پر قابوپانے کی غرض سے دریاؤں پر ہائیڈل پاورمنصوبے شروع کرنے جبکہ دریاؤں سمیت تمام قدرتی وسائل کوشہریوں کی ترقی وخوشحالی کے لئے بروئے کارلانے کی غرض سے میگاترقیاتی پرجیکٹس پایہ تکمیل بنانے،کرپشن کاصفایہ کرنے کے لئے حتساب کابہترنظام قائم کرنے سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کوریلیف فراہم کرنے کے وعدے شامل تھے اوریہی وہ وعدے تھے جن کی بنیادپر عوام نے ووٹ دیکرپی ٹی آئی کو منصب اقتدارپافائزکیااورآس لگاکران وعدوں کے پوراہونے کاانتظارکرنے لگے مگرشومئی قسمت انہیں اس باربھی مایوسی کاسامناکرناپڑاکیونکہ پی ٹی آئی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کوسامنے رکھتے ہوئے یہ کہناشائد غلط نہیں ہوگاکہ 90روزمیں تبدیلی لانے کانعرہ لگاکراقتدارمیں آنے والی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہی،تعلیمی صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی آئی نہ صحت کے شعبے میں غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ،اقتدارسنبھالتے ہی وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے تعلیمی ایمرجنسی کانعرہ بلند کیامگر یہ محض نعرہ ہی ثابت ہواعملاََ تعلیمی حالت کی بہتری بارے کچھ بھی دکھائی نہیں دیاتدریسی عملہ کی کارکردی جانچنے اورانہیں ڈیوٹی دینے کاپابند بنانے کے حوالے مانیٹرنگ آفیسرزمقررکرکے انہیں سرکاری خزانہ سے بھاری بھرکم تنخواہیں دی گئیں مگرمطلوبہ اہداف حاصل کرنے کانتیجہ کچھ بھی برآمد نہ ہوسکااسی طرح طب کے شعبے میں صوبائی حکومت کی جانب سے بڑامنصوبہ صحت انصاف کارڈکی صورت میں ضرورپیش کیاگیامگریہ منصوبہ بھی شہریوں کوطبی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہی ثابت ہوا جبکہ صوبائی حکومت پانچ سالہ دوراقتدارمیں ایک بھی نیاہسپتال نہ بناسکی،میعشت کی بہتری کے لئے سرمایہ کاروں کوراغب کرنے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کاکہنایہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب صوبے میں کوئی بھی بہتری لانے اور معیشت مستحکم بنانے کے لئے خاطرخوااقدامات اٹھاناتوکجاالٹاحکومت صوبے کو مقروض کرکے جارہی ہے،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا انتخابی مہم اورپھراقتدارسنبھالنے کے بعد کہنایہ تھاکہ وہ کوئی بھی بیرونی قرضہ نہیں لیں گے لیکن بعدمیں قرضوں پہ قرضے لے گئے،میٹروبس لاہورکوجنگلہ بس قراردے کرعمران خان اورکی صوبائی حکومت چارسال تک اس کامذاق اڑاتے رہے اورکہتے رہے کہ سڑکوں کی تعمیر اورسفری سہولیات کی فراہمی سے کوئی ترقی نہیں آتی مگر حکومت کے آخری سال اسی میٹروبس منصوبے کے لئے پشاورشہرکوکھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا جس سے شہریوں کو سہولیات دینے کی بجائے مزید آذیت سے گزاراگیاجبکہ وہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائے بغیرپی ٹی آئی کی حکومت رخصت ہورہی ہے حالنکہ منصوبے کوچھ ماہ میں مکمل کرانے کااعلان کیاگیا تھا،گرین خیبرپختونخواکاتصورپیش کرکے صوبہ بھرمیں بلین ٹریزلگانے کابھی دعویٰ کیاگیامگروہ بھی عملاََ پورانہ ہوسکااوراب تو نیب اس معاملے میں تحقیقات کررہاہے،میرٹ اوراحتساب کادعویٰ کرتی پی ٹی آئی نے اپنے وزراء کے خلاف انکوائری شروع ہونے پر اپنے ہی بنائے گئے احتساب کمیشن کاخاتمہ کردیا،سوات موٹروے منصوبے کاپہلامرحلہ بھی محض افتتاح تک محدودرہااورافتتاح بھی ایکپریس وے کے اس حصے کاکیاگیاجس پر ابھی کام جاری ہے،زمینی حقائق کی روشنی میں تجزیہ نگاروں کے لئے یہ امر حیران کن ہے کہ پی ٹی آئی اگلے الیکشن میں کامیابی کے لئے کس چیزکوبنیادبناکرعوام کی عدالت کاسامناکریں گے یا پی ٹی آئی کی قیادت اس خوش فہمی میں مبتلاہے کہ چاہے کچھ بھی ہوووٹ توملے گاکیونکہ کیاکام ہواہے اورکیانہیں اورانتخابی معرکے میں کھڑاکون ہے جنون کاووٹ توبس پی ٹی آئی کوہی ملے گالیکن یہ ان کی غلط فہمی بھی ثابت ہوسکتی ہے سیاسی اورعوامی حلقوں کی رائے کے مطابق خیبرپختونخوامیں اقتدارہاتھ آنے کاعمران خان اوران کی جماعت کوسنہری موقع ملاتھا اگر عمران خان صحیح معنوں میں نیاخیبرپختونخوابنالیتے تو نیاپاکستان بنانے کے لئے انہیں پنجاب سمیت ملک کے طول وعرض میں انتخابی مہم چلانے کی بھی ضرورت نہ پیش آتی مگروہ ایک اچھاموقع گنوابیٹھے ہیں اوراگرووٹ لیناکارکردگی کی بنیادپر ہواتوخیبرپختونخوامیں اگلاانتخابی معرکہ کامیابی سے سرکرناپی ٹی آئی کے لئے بہت بڑاچیلنج ہوگابہرحال نظرآتی مشکلات کے تناظرمیں پی ٹی آئی کی انتخابی حکمت عملی کیاہوگی اورگٹھ جوڑکی سیاست کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،کیاپی ٹی آئی خیبرپختونخواکے عوام کوقائل کرتے ہوئے بظاہر مشکل دکھائی دیتے چیلنجوں سے نبردآزماہونے میں کامیاب ہوگی کہ نہیں اس بارے حتمی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں