254

وقت وقت کی بات۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات

بدر کا میدان سجا تھا ایک طرف دولت ، برتری اور بدنی طاقت کے نشے میں مست کفار مکہ کے زال تھے ۔۔ان کے ذہنوں میں مٹھی بھر مسلمانوں کو آج کے دن صفحہ ہستی سے مٹانا تھا ۔ان بے چاروں کو اپنے پنجوں تلے روندنا تھا ۔۔ان کو اپنی طاقت پہ گھمنڈ تھا ۔۔ان کی اپنی تلواریں چمکتی دیکھائی دے رہی تھیں ۔۔ان کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں خیالوں میں آرہی تھیں ۔ان کے کانوں میں جیت جیت کی آوازیں رس گھول رہی تھیں ۔۔ان کی خواتیں ساتھ تھیں جو ان کو جھوٹی غیرت دلائی جا رہی تھیں ۔۔ان کی مردانگی کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا ۔۔شرابی نغمے تھے ۔۔سر مستیاں تھیں ۔۔۔ عرب کے سورمے اپنے گھوڑوں کو اڑھیاں مار رہے تھے ۔۔سر تا پا آہن پوش تھے ۔۔بتوں کی قسمیں تھیں اور دھائیاں تھیں ۔۔ایک طرف مٹھی بھرجان نثاراں رسولﷺ تھے ۔۔دو گھوڑے تھے ۔۔ستر اونٹ تھے ۔۔کسی کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ۔۔کوئی تبر لےئے ہوئے تھا ۔۔کسی کے ہاتھ میں بس چاقو تھا ۔۔پیٹ خالی تھے ۔بدن کمزور تھا ۔۔تعداد دشمن سے چار گنا کم تھی ۔۔لیکن فخر موجودات ﷺ ساتھ تھے ۔۔یہ حق کے متوالے تھے ۔۔اللہ کے نام لیوا تھے ۔۔آخرت کی سرخروئی کا خواب تھا ۔۔وہ وحدانیت کے قائل تھے ۔۔ان کو کسی دنیائی طاقت پہ گھمنڈنہ تھا ۔۔ان میں ایمان کی انکساری تھی ۔۔انھیں اللہ پہ بھروسہ تھا ۔وہ سرخرو تھے کہ باطل سے بر سر پیکار تھے ۔۔فخر موجوداتﷺ ساری رات اپنے رب کے حضور گڑ گڑاتے رہے تھے ۔۔آقا آج اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ان کفار کے ہاتھوں مٹ گئے تو پھر دنیا میں تیرا نام لیوا کوئی نہیں ہو گا ۔۔سر مبارک جھکا ہوا تھا آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔۔عاجزی عضب کی تھی ۔۔جیت کی ہوس کوئی نہیں تھی صرف حق کا بول بالا چاہتے تھے ۔۔اللہ کی زمین میں اللہ کا قانون نافذ کراناتھا ۔۔رب کائنات کے نبیﷺ کے پاس دنیا کی آسائیشیں کوئی نہیں تھیں آپﷺ کے جان نثاروں کو ملبوسات و ماکلات تک میسر نہیں تھے ۔۔ تپتے صحرائے عرب میں بے سرو سامان تھے ۔۔ایک طرف ساری دنیا تھی ۔۔کفرو الحاد کی آسائشوں سے بھر پور دنیا ۔۔رسول خداﷺ نے تیر کی نوک سے اپنے جان نثاروں کی صف بندی کی ۔رزم گاہ سجا ۔۔کفر کی دنیا لرزہ براندام رہ گئی ۔۔حق کی ساکھ دھاگ بیٹھ گئی ۔۔حق کی روشنی پھیلتی گئی ۔دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوا ۔۔کبھی حیدر کرارؓ کی تلوار چمکی کبھی خالدؓ کا بھالا اٹھا ۔کبھیا بوعبیدہؓ میدان میں اُترے ۔۔صحراؤں کا غرور ٹوٹا ۔بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئے گئے ۔
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت اشنائی
وقت وقت کی بات ہے ۔۔منظر بدلتا ہے ۔۔وہ پر اسرار بندے زر کے پجاری ہیں ۔صحرا وہی ہے ۔۔مگر ان صحراؤں کو دیو ہیکل عمارات میں بدل دیا گیا ہے ۔۔ان کے اندر جنت اتاری گئی ہے ۔۔گاوء تکئے ہیں ۔۔مسند وہ ہیں جن کا ذکر جنت کے حوالے سے کیا گیا تھا ۔جنت والی تو نہیں ہیں مگر کوشش ضرور ہے عارضی دنیا کو جنت بنانے کی کوشش۔۔حماقت ۔۔تاج دارا فاروق اعظمؓ کے سامنے لایا گیا ۔۔آپؓ نے اس پہ پاؤں رکھا اور رو رو کر فرمایا ۔۔کہ آج سے اُمت کا زوال شروع ہوا ۔کیونکہ عیاشی آگئی ۔۔مرداں صحرائی تخت و تاج کی چکا چوند میں کھو جائیں گے ۔۔واقعی کھو گئے ۔۔زربفت و کمخواب زیب تن کئے یہ زر کے پوجار ی بن گئے ۔۔ اپنا سب کچھ کھو گئے ۔۔ ان کی کالی دھن تیل ان کے ہاں اللہ کا گھر ۔۔ان کے پاس سمندر ۔۔ان کے پہاڑ جواہرات سے بھرے ہوئے ۔۔ان کے پاس رحمتوں کی سر زمین ۔۔وہ علم ۔۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے وارث۔۔مگر وہ گھوڑا بیج کر پاؤں پھیلا کر سو گئے ۔۔صحرائے عرب سے پھیل کر وہ داعی ستاون ممالک میں بس گئے ۔۔ان کی حکومتیں۔۔ ان کی فوج ۔۔ان کے ہھتیار ۔۔ان کی دولت ۔۔مگر وقت وقت کی بات ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔عراق جل رہا ہے افغانستان جل رہا ہے ۔۔شام، فلسطین ،کشمیر۔۔بچے کچلے سرہے ہیں ۔۔عورتوں کے سروں سے دوپٹے اُتارے جارہے ہیں ۔۔ماؤں کے جگر گوشے ان کی نظروں کے سامنے کٹ مر رہے ہیں ۔۔۔ٹیکنالوجی مستغار ۔۔ہھتیار خریدی جارہی ہیں ۔ریاستیں قرضوں پہ پل رہی ہیں ۔اس کے چالیس ممالک کی فوجیں اسی صحرا میں بیٹھی ہیں جہان سے فخر موجوداتﷺ اعلان حق کیا تھا ۔۔جہان سے دین حق کے متوالوں کی تلواریں چمکیں تھیں ۔۔جہان سے نعرہ لا تذر بلند ہوا تھا ۔۔یہ لشکر مٹھی بھر اسرائیلیوں للکار نہیں سکتی کہ اپنی بربریت کو لگام دو ۔۔امریکہ کو نہیں کہہ سکی کہ بادشاہ سلامت افغانستان ہمارا ہے ۔۔عراق پر ہمارا حق ہے ۔۔آپ کی سرمستیاں اپنی جگہ لیکن خدا کی زمین کسی اور کا بھی حق ہے ۔۔چلو ان صحراؤں کی طرف آو پنجہ آزماتے ہیں دیکھتے ہیں کہ خالدؓ کی تلوار کی یاد تازہ ہوتی یا نہیں ۔۔طارق پھر سے کشتیاں جلاتا ہے یا نہیں ۔۔بیت المقدس کی چابیاں پھر سے پیش کی جاتی ہیں یا نہیں ۔۔وقت وقت کی بات ہے ہم ایسا نہیں کر سکتے ۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں