372

کفن کی جیب۔۔۔۔۔جمہور کی آواز

OOOایک انتہائی مالدار کنجوس بسترِ مرگ پر تھا مرض بڑھتا گیا جوں جو ں دواکی کے مصداق اس کی دن بہ دن حالت بگڑتی جارہی تھی عیادت کو آتے جاتے لوگ اسے مشورے پہ مشورہ دیئے جارہے تھے تمہارا آخری وقت آگیاہے اللہ کے نام پر کچھ تو دیتے جاؤ وہ سنی ان سنی کردیتا۔۔ایک روز وہ لگتا تھا کہ گھڑی پل کا مہمان ہے عزیز و اقارب، دوست احباب اور محلے دار مالدار کنجوس کی چارپائی کے گرد جمع تھے کہ حالت سنبھل گئی اتنے میں مولوی صاحب تشریف لائے انہوں نے تلقین کے انداز میں کہا حضرت!وقت قریب ہے اللہ کے نام پر کچھ دیتے جاؤ سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ کنجوس نے ہمت کرکے سر اٹھایا کچھ کہنے کیلئے لب کھولے مولوی صاحب کے چہرے پر رونق سی آگئی سب متوجہ ہوگئے تو اس نے جل کر کہا کم بختو! جان تو دے رہا ہوں اور کیا دوں؟۔ہمارے معاشرے میں روپے پیسے کے معاملہ میں بیشترلوگوں کا رویہ ایسا ہی ہے زندگی کی آخری سانسوں تک دولت کی محبت دل سے نہیں جاتی یہ المیہ بلکہ اسے سانحہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ مسلمان اس سلسلہ میں زیادہ’’ بدنام‘‘ ہیں شایداسی بناء پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی سینیٹرنے کہا تھا’’ پاکستانی دولت کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں‘‘۔ حالانکہ دولت کیلئے اتنی چاہت۔۔عجب رویہ۔اخلاقی قدروں کی پامالی انسان کو زیب نہیں دیتی نب�ئ اکرم ﷺ نے یقیناًاسی لئے دولت کو اپنی امت کیلئے فتنہ قراردیا ہے آئے روزاخبارات میں خبریں چھپتی رہتی ہیں جائدادکی خاطر بھائی نے بھائی کا خون کردیا۔۔ دیور ،جیٹھ یا سسرال نے بیوہ بھابھی،بہو کو گھر سے نکال باہر کیاحتیٰ کہ پیسے کی لالچ میں اب تو ناخلف بیٹے والدین کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔یہ سب دولت سے محبت کا شاخسانہ ہے جس نے بھلے برے کی تمیز،رشتوں کا احترام اوردلوں سے محبت کو ختم کرکے رکھ دیاہے ماہرینِ نفسیات کا کہناہے کہ دولت اکھٹی کرنا ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے یہ دل میں اجاگرہو جائے تو پھر دولت سے محبت کی خواہش دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے رفتہ رفتہ یہ خواہش ۔ہوس میں تبدیل ہو جاتی ہے، جائز ناجائزمیں کوئی تمیز نہیں رہتی۔دولت کی ضرورت اور اہمیت سے کسی طور بھی انکار ممکن نہیں لیکن اپنے آپ کو دولت کا پجاری یا غلام بنا لینا صریحاً اپنی شخصیت سے ظلم،معاشرے کے ساتھ ناانصافی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ زیادتی ہے اس طرزِ عمل سے انسان کی شخصیت بری طرح مسخ ہوکررہ جاتی ہے اسی لئے مذہب اسلام نے میانہ روی کا حکم دیاہے اعتدال کا یہ راستہ انسان کو بہت سی مشکلات سے محفوظ رکھتاہے آخری الہامی کتاب قرآن حکیم میں دولت کو اپنا سب کچھ ماننے والوں کو سخت نا پسند کیاگیاہے ایسے لوگوں کیلئے وعید ہے ۔ایک کہاوت کے مطابق قارون کی دولت دنیا میں ایک بری مثال ہے یعنی وہ دولت جس سے بنی نوع انسانیت کے لئے کچھ نہ کیا جائے کڑی دھوپ میں تپتے صحراکی مانندہے دنیا میں بہت سے امیر کبیر لوگ موجود ہیں یا اس دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن جو انسانیت کی خدمت کیلئے سرگرمِ عمل رہے ان کا نام کسی نہ کسی انداز میں آج بھی زندہ ہے ۔دنیا بھرمیں حالات سے مایوس لوگ سوشلزم کی طرف مائل ہوئے لیکن وہ بھی اس کا کوئی مؤثر حل پیش نہ کرسکا اس تجربے کی ناکامی کے بعد لوگ اب تلک مختلف حل ڈھونڈتے پھررہے ہیں ۔ اسلام سے پہلے حاتم طائی کی شہرت سخاوت کیلئے مشہور تھی اس کا نام اب بھی سخاوت کی علامت سمجھا جاتاہے اسلامی تاریخ میں حضرت عثمانؓ ِ غنی اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کی سخاوت کا بڑا شہرا ہے۔ پاکستان میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں پاکستان نصف صدی سے جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوں تک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت پاکستانیوں کی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں یہ خاندان جو چاہیں سیاہ و سفید کرنے پر قادرہیں بدقسمتی سے یہ لوگ سٹیٹ سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں قانون ان کی مٹھی میں ہے، آئین ان کی خواہش کا نام ہے جس کو موم کی ناک بناکر جدھر چاہیں گھمادیں۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے عوام کیلئے غربت کو بدنصیبی بنا دیاہے جس سے چھٹکارہ کسی طور بھی ممکن نہیں آرہا۔غربت سے تو اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے اور مستحقین کی مدد کرنے کا حکم دیاہے اسلام کا ایک بنیادی جز زکوٰۃ کا مقصد ہی کم وسائل لوگوں اور غریبوں کی کفالت کرناہے اسی لئے مذہب اسلام کو دینِ فطرت کہاجاتاہے ۔کہتے ہیں کہ غربت ایسی خوفناک چیزہے یہ سب سے پہلے انسان کی غیرت پر حملہ کرتی ہے پھر شرم ،حیا اوردل کی طمانیت رخصت ہو جاتی ہے حضرت بابا فریدؓ نے اسی لئے کہا تھا
پیٹ نہ پییاں روٹیاں
تے سبھے گلاں کھوٹیاں
پاکستان میں غربت کی بناء پر خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ حکومت، سماجی تنظیموں اور صاحبِ ثروت حضرات کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے اب تو فاقوں سے تنگ آکر والدین میں اپنے بچوں کو قتل کرنے کا رحجان پیداہورہاہے ۔ ایک عالمی ادارے نے دل ہلا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتاجارہاہے75% سے زائد شہری خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں زندگی کی ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہیں سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچ چکے ہیں جبکہ اب گردوں کی خرید و فروخت نے ا یک کاروبار کی صورت اختیارکرلی ہے جس میں بعض ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جسم فروشی میں خوفناک اضافہ ہوتا جارہاہے یہ سب غربت جیسی لعنت کی وجہ سے ایسا ہورہاہے وسائل کی کمی،طبقاتی پریشانی اورذہنی الجھاؤ کے باعث بھی عام خاندان کے نوجوان منشیات کی طرف راغب ہوکر اپنے والدین کو مزید غربت میں دھکیل رہے ہیں اسی بناء پر امیر ۔امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور غریب تو نسل در نسل
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کی تفسیربنے ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی بھی حکومت نے غربت ختم کرنے کیلئے حقیقی اقدامات نہیں کئے اگر کسی نے ڈھیلے دھالے انداز میں ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو افسر شاہی یاارکانِ اسمبلی نے ان کاوشوں پر پانی پھیردیا اوروہ خود مالا مال ہوگئے اور یوں وہ غربت ختم کرنے کی بجائے غریب ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے اوریوں حکومتی کوششیں بار آور نہ ہو سکیں اگرپاکستان کے TOP10 قومی رہنما اور ممتازشخصیات صرف اپنا سرمایہ پاکستان لے آئیں تو اس سے ملکی معیشت کو نہ صرف استحکام ملے گا بلکہ روزگارکے اتنے مواقع میسر آسکیں گے کہ عام آدمی بھی دو وقت کی روٹی عزت سے کھا سکے گا میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، چوہدری برادران،ہمایوں اخترخان اور میاں محمد منشاء فیملیزکو اس بارے غور کرنا چاہیے اس سے بہتوں کا بھلا ہونے کی قوی امیدہے۔ وہ بدنصیب پاکستانی جو کبھی تھرپار کرمیں غذائی قلت کا شکارہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کبھی چولستان میں قحط سے فاقے کرنے پر مجبور ہیں اور مسائل در مسائل نے جن کی زندگیوں کو جہنم بناکر رکھ دیا ہے ان کیلئے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں
مزدور کے بیٹے نے کھلونے نہ خریدے
لے آیا میلے سے بھی دو وقت کا کھانا
کاش معاشرے میں دولت سے محبت کرنے والے اتنا سوچ لیں کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی سکندرِ اعظم جیسے لوگ جب دنیا سے گئے تو انکے دونوں ہاتھ خالی تھے دولتمند ۔ مسائل کے مارے لوگوں کو خوشیاں خریدکردے سکتے ہیںیقیناًاس سے ان کو روحانی خوشی ضرور حاصل ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں